ایف بی آر کی حالیہ پالیسیاں اور ان کے معیشت پر اثرات

13

محمد ندیم بھٹی پاکستان میں محصولات کی وصولی کا سب سے اہم ادارہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ھے جو ملک کی مالی پالیسیوں میں ملک کو چلانے میں مرکزی کردار ادا کرتا ھے۔ حالیہ دنوں میں ایف بی آر نے متعدد نئی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں جن کا مقصد ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، آمدنی میں اضافہ کرنا، اور معیشت کو ڈاکیومنٹڈ بنانا ھے۔ تاہم، ان پالیسیوں کے کچھ منفی اثرات بھی معیشت پر دیکھے جا رھے ہیں، جنہوں نے تاجروں، سرمایہ کاروں، اور عام شہریوں کو متاثر کیا ھے۔
میں نے اپنے اس کالم میں ایف بی آر کی تازہ ترین پالیسیوں کا جائزہ لیا ھے اور تحقیق کے بعد ان کے معاشی اثرات پر روشنی ڈالی ھے۔
ایف بی آر کی جانب سے حالیہ عرصے میں متعارف کی گئی اہم پالیسیوں میں شامل ود ہولڈنگ ٹیکس کے دائرہ کار میں توسیع ھے۔ایف بی آر نے جائیداد، ای کامرس، اور فری لانسرز جیسے شعبوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس کی رینج بڑھا دی ھے۔ بینکوں کو غیر فائلرز کے لین دین کی زیادہ تفصیل رپورٹ کرنے کا پابند بنایا گیا ھے۔
دستاویزی نظام میں سختی تاجروں، دکانداروں اور تھوک فروشوں کو ایف بی آر کے پوائنٹ آف سیل (POS) سسٹم کے ساتھ منسلک ہونا لازمی قرار دیا گیا ھے، بصورت دیگر انہیں بھاری ٹیکس یا جرمانوں کا سامنا ھو سکتا ھے۔
نان فائلرز کے لیے بلند ٹیکس شرح نان فائلرز کے لیے گاڑیوں کی رجسٹریشن، بینک ٹرانزیکشنز اور پراپرٹی کی خریداری جیسے معاملات پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح میں خاصا اضافہ کیا گیا ھے۔
ریئل ٹائم انوائسنگ نظام
مینوفیکچررز اور بڑے ریٹیلرز کو ریئل ٹائم انوائسنگ کے نظام سے جوڑا گیاھے تاکہ انڈر انوائسنگ اور ٹیکس چوری کے وسیع پیمانے کو روکا جا سکے۔
جائیداد کی ویلیوایشن میں اضافہ کی بات کریں توجائیدادوں کی سرکاری قیمتوں کو مارکیٹ ویلیو کے قریب کیا گیا ھے تاکہ کالا دھن روکنے اور کیپیٹل گین ٹیکس وصول کرنے میں آسانی ممکن ھو۔ ان تمام اصولوں کے بعد اگر ھم حکومت کے مقاصد اور ممکنہ فوائد کے بارے میں بات کریں تو حکومت اور ایف بی آر کی نظر میں یہ اقدامات درج ذیل مقاصد کے حصول کے لیے کیے جا
رھے ہیں تاکہ ملک کو وصول کردہ ٹیکس سے عام عوام کے لئے بہت بہتر طریقے سے چلایا جا سکے۔ ٹیکس نیٹ کی
پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح انتہائی کم ھے۔ یہ پالیسیاں زیادہ افراد اور کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش ہیں. آمدنی میں اضافہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے ملکی ذرائع سے آمدنی کی اشد ضرورت ھے۔
پاکستان میں غیر رسمی معیشت کی شرح بہت زیادہ ھے۔ ایف بی آر کا مقصد اسے ڈاکیومنٹ کرنا ھے۔ ڈیجیٹل نظام کی جانب پیش رفتکی بات کریں تو ڈیجیٹل ٹولز اور ریئل ٹائم مانیٹرنگ کے ذریعے ٹیکس نظام کو شفاف بنانا مقصود ھے۔
ان تمام مندرجہ بالا پالیسیوں کے برعکس پاکستان کو منفی اثرات اور خدشات بھی لاحق ہیں۔
اگرچہ ان پالیسیوں کے مقاصد بہت مثبت ہیں، مگر عملی طور پر ان کے کچھ منفی اثرات بھی نمایاں ہو رھے ہیں جس سے متوسط اور کم پڑھے لکھے طبقے پر بوجھ بھی مختلف اطراف سے ممکن ھے ۔جس میں مختلف اور زیادہ ٹیکس، کی ادائیگی جس کا نظام قومی زبان اردو میں ہونے کے باوجود اور علاوہ ، بینک ٹرانزیکشنز پر کٹوتیاں، اور پیچیدہ دستاویزات نے چھوٹے تاجروں اور تنخواہ دار طبقے کو مشکل میں ڈال دیا ھے۔ جس کا ذکر لاھور چیمبر میں چئیرمین ایف بی آر کو وضاحت سے کیا گیا ھے
اور اگر فکس ٹیکس لگا دیا جائے تو بہت زیادہ ٹیکس کی وصولی ممکن ھے جو وطن عزیز کی بہبود کے لئے بہت ضروری بھی ھے۔ ٹیکس ادائیگی کے پیچیدہ نظام میں مختلف کردار کے ڈیپارٹمنٹ سے متعلق لوگ بھی حراساں کر کے مختلف حربوں سے ٹیکس رقوم کے علاوہ بھی مال۔بٹورنے میں ایکسپرٹ ہیں ۔جن کا خاص ذکر کس اور دن اور کسی اور کالم میں خصوصی ذکر کیا جا ئے گا۔
سرمایہ کاری میں کمی جیسے اثرات بھی ممکن ہیں ۔جائیداد کی قیمتوں میں اچانک اضافے اور بار بار ٹیکس قوانین میں تبدیلیوں نے پراپرٹی مارکیٹ کو متاثر کیا ھوا ھے۔چھوٹے دکاندار POS سسٹم نصب کرنے یا دستاویزات مکمل کرنے کے قابل نہیں، جس کی وجہ سے کئی کاروبار بند ہونے کے قریب ہیں۔
غیر رسمی معیشت میں اضافہ کی بات کریں تو
کچھ کاروبار ٹیکس نظام سے بچنے کے لیے دوبارہ نقد لین دین یا غیر رجسٹرڈ راستے اپنانے لگے ہیں۔ صارفین کی قوتِ خرید میں کمی بھی ان پالیسیوں سے منسلک ھے۔
ٹیکسز اور مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی خریداری کی صلاحیت متاثر ہوئی ھے، جس سے مارکیٹ سست روی کا شکار ھے۔
ایف بی آر سے خوف و خدشات کا تاثر بھی عام ھے۔تاجر تنظیمیں ایف بی آر کے طرز عمل کو “ہراسانی” قرار دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سےاکثر کاروباری حضرات رجسٹریشن سے گریز کرتے ہیں۔ عوامی اور کاروباری ردِ عمل دوسرے راستے اختیار کر تا ھے جس کا فائدہ صرف چند خاص لوگوں کو ہوتا ھے۔
ملک بھر کی تاجر برادری، چیمبرز آف کامرس، اور ٹیکس بار ایسوسی ایشنز ایف بی آر کے رویے پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پالیسیوں پر عملدرآمد مرحلہ وار کیا جائے اور سختی کے بجائے ترغیبات دی جائیں۔
ایک عام تاثر یہ ھے کہ ایماندار ٹیکس دہندگان کو بار بار نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ طاقتور طبقے اور بڑے چور ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں۔
بین الاقوامی مثالیں اور اسباق دیکھنے پر معلوم ھوتا ھے۔کئی ترقی پذیر ممالک نے ٹیکس اصلاحات کامیابی سے نافذ کی ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم عنصر ٹیکس دہندگان کا اعتماد حاصل کرنا تھا۔ روانڈا اور جارجیا جیسے ممالک میں ٹیکس اصلاحات کے ساتھ ساتھ عوام کو تعلیم اور سہولیات فراہم کی گئیں۔
پاکستان میں ایف بی آر کو ایک “سزا دینے والے ادارے” کے طور پر دیکھا جاتا ھے۔ جب تک یہ تاثر نہیں بدلے گا، رضاکارانہ ٹیکس ادائیگی ممکن نہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.