معزز علماء کرام اللہ آپ سب کو دو جہانوں کی سر بلندیوں سے نوازے۔ یقیناً آپ کے لگائے یہ پودے جو خوشبو بن کر دنیا کو معطر کر رہے ہیں۔ آپ نے جتنا کام کیا وہ قابل تحسین ہے۔ آج آپ سب کی بارگاہوں میں چند سوالات لے کر حاضر ہوا ہوں امید ہے اس ادنی سے طالب علم کو مستفید فرما کر علمی پیاس کو بجھائیں گے۔
پاکستان بننے سے اب تک آپ کا ملکی ترقی میں کردار نمایاں ہے، اس کی مثال وہ خانقاہیں یا مدارس ہیں جن کو آپ عوام کے ناتواں کندھوں پر رکھ کر چلا رہے ہیں۔ اب ذرا دباؤ پڑا تو اسکولنگ سسٹم بھی ساتھ بنا لیے ہیں۔ جس طرح ہمارے ملک کا ستر فی صد رقبہ زرخیز اور زرعی ہے اسی طرح ہمارے ملک کی اکثریتی آبادی مذہبی ہے، جو آپ کے اشاروں پر ناچتی ہے۔ کیا آپ سے ستر فی صد زرعی رقبے پر محنت مزدوری کرنے والے شخص میں سے کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں جہاں اکثریت عوام کھانے پینے سے لاچار ہیں، کئی عصمتیں بیچنے تو کئی خودکشی پر مجبور ہیں۔ ایسے میں آپ بے فکر ہو کر ذکر و فکر میں بدمست ہیں۔ آپ کا ذریعہ آمدن کیا ہے؟ آپ نے عوام سے چندے لے کر کون کون سے کاروبار کیے ہیں، جس سے آپ کی ساتوں نسلیں سنور گئی ہیں اور غریب کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ آپ اکثر کہتے ہیں، بندہ لاؤ پیسہ بھی آجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کو ایمان یقین اور محنت مزدوری کی دعوتیں دینے والے خود کہاں سے طلسمی خزانے اکھٹے کر رہے ہیں کہ غریب کے گھر میں دیا بھی میسّر نہیں مٹّی کا، آپ کے گھر بجلی کے چراغوں سے ہے روشن کیوں؟ آپ دوسروں کو ہاتھ سے کمانے کے بدلے اللہ کا دوست کہنے کی بشارتیں سُناتے نہیں تھکتے ، آپ خود کب اس بشارت پر عمل کر کے اللہ سے دوستی کریں گے۔ دوسروں کو سادگی اپنانے ،جو کی روٹی کھانے کی تبلیغ کرتے ہیں اور خود پلازوں اور گاڑیوں کے راتوں رات مالک کیسے بن جاتے ہیں۔ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مانگنے سے سختی سے منع کیا اور فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے (ہاتھ مانگنے والے) سے بہتر ہے۔ ہم کب تک دوسروں کے منتظر رہیں گے کہ کوئی شکار ہاتھ لگے اور مسجد، مدرسہ کا کام ہو سکے یا اساتذہ کو تنخواہ دے سکیں۔ ٹھیک ہے دین کے ساتھ تعاون کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے لیکن دین کو کسی شخص کے صدقے خیرات کا محتاج کرنا کون سی خدمت دین ہے؟ پاکستان کی اکثریتی آبادی دین داروں لوگوں کی ہے جو محنت مزدوری کی بجائے اکثر لوگوں کے صدقات، خیرات اور زکوتہ کے محتاج ہیں۔ انھیں یہ درس دینے کی ضرورت ہے کہ زکوتہ کا مطلب غریبوں کو راشن دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کو کاروباری بنا کر پاؤں پر کھڑا کرنا ہوتا ہے۔ شعب الایمان کی روایت میں ہے، حلال کمائی کی تلاش ایک فرض کے بعد دوسرا فرض ہے۔ صحیح بخاری میں ہے، کسی شخص نے اپنی ہاتھ کی کمائی سے زیادہ بہتر کھانا کبھی نہیں کھایا، اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔ سنن الکبری کی روایت میں ہے، رزق حلال کو طلب کرنا فرض ہے، فرض کے بعد۔ افسوس آج امت کی اکثریت رزق حلال عین عبادت کی روش کو بھول چکی ہے، وہ منتظر رہتی ہے کہ کہیں سے کوئی موٹا تازہ شکار ہاتھ لگے اور ان کے مزے ہوں۔ ہمارے اکثر مذہبی طبقے کے لوگ آج کسب حلال کو بھول چکے ہیں وہ نہ صرف ملک پر بلکہ محنت مزدوری کرنے والے عوام پر بھی بوجھ بن چکے ہیں ہمیں بتائیے نا جب ہمارے ملک کی آدھی آبادی محنت مزدوری سے جی چھڑائے، بھیک، صدقات خیرات اور ویلفیئر کے نام سے لوگوں کی جیب پر نظریں جمائے بیٹھے ہوں گے تو ملک کا کیا حال ہوگا؟ علما سے تو نہ صرف لوگ دین سیکھتے بلکہ تجارت بھی سیکھا کرتے تھے۔ کسی بھی پیشے کو کمتر سمجھنا سراسر جہالت ہے۔ علماء کو کاروباری اور ہنرمند ہونا چاہیے۔ آج جب بھی کوئی عالم دین کاروبار کا سوچتا ہے تو ہر کوئی اسے دین کے منافی قرار دیتا ہے۔ اگر یہی کرنا تھا تو مدارس میں کیوں رہے؟ اور اگر ہمت کرکے کوئی پہلا قدم اٹھا بھی لے تو ہم عصر یہ طعنہ دے کر خون جلاتے ہیں تدریس کے لیے قبولیت شرط ہے قابلیت نہیں، اللہ نے قبول نہیں کیا انتہائی افسوس۔ اگر تاریخ اسلام پہ نگاہ دوڑائی جائے تو کاروبار کی شروعات اسلام کی شروعات سے ہی نظر آتی ہے۔ نبی پاک نے بکریاں پال کر فروخت کیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کپڑا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اونٹ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے چمڑا اور حضرت علی علیہ السلام نے زرہیں فروخت کر کے اپنے گھر کے کو سہارا دیا۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے کھجوروں سے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پتھروں سے، حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے لکڑی کے برادے سے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے کھجور کی چھال سے، حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ نے مشکیزوں سےاور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگل کی لکڑیوں سے اپنے گھر کی کفالت کا فریضہ سرانجام دیا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کتابت کرتے، اسحاق بن رہوے رحمت اللہ علیہ برتن بنا تے، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ٹوپیاں بناتے، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ خوشبو بیچتے، امام نسائی رحمت اللہ علیہ بکریوں کے بچے فروخت کرتے، ابن ماج رحمۃ اللہ علیہ رکاب اور لگامیں مہیا فرماتے رہے۔ امام قدوری رحمۃ اللہ علیہ نے مٹی کے برتنوں کا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد حسن بن ربیع رحمۃ اللہ علیہ نے کوفی بوریوں کا کاروبار کیا۔ حضرت امام احمد ابن خالد قرطبی رحمت اللہ علیہ نے جبہ فروش (بوتیک)قائم کی، حضرت امام ابن جوزی رحمۃ اللہ