شکر گزاری مگر کیسے ؟
احساس کے انداز
تحریر ؛۔جاویدایازخان
ہمارے اباجی کے یوں تو بہت سے قریبی دوست تھے مگر خوش قسمتی سے ان کے کچھ دوستوں سے ملنے اور ان کی خدمت کرنے کا شرف مجھے بھی حاصل ہوا ۔
ان میں مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان مرحوم ،حکیم محمد سعید دہلوی شہید ،اشفاق احمد خان مر حوم اور سید یاسر حسین جعفری مرحوم بھی شامل تھے ۔
سردار عبدالقیوم خان صاحب تو رات کو ٹھہرتے تو زمین پر سوتے اور نرم بستر بھی استعمال نہ کرتے جبکہ حکیم صاحب بھی بےحد سادہ انسان تھے ۔
البتہ اشفاق احمد خان صاحب رات کو قیام نہ کرتے صبح سویرے سندھ ایکسپریس سے پہنچتےتھے ۔
وہ اباجی سے بڑی محبت اور عقیدت رکھتے تھے اور انہیں باباجی کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔
وہ سارا دن اباجی کے ہمراہ گفتگو اور بات چیت میں گزارتے اور رات کو اسی ٹرین سے واپس لاہور چلے جاتے ۔
مجھے یہ سعادت ملی کہ میں صبح سویرے نماز سے قبل انہیں ڈیرہ نواب صاحب ریلوے اسٹیشن سے لے لیتا اور پھر رات کو اسی ٹرین پر سوار کرادیتا۔
گو میں لڑکا سا تھا ان کی بڑی بڑی باتیں سمجھ نہ آتی تھیں پھر بھی مجھے ان سب سےبہت کچھ سیکھنااور سننے کا موقعہ ملا ۔
ان کی شخصیت اور گفتگو کا سحر میں آج بھی محسوس کرتا ہوں ۔اسی لیے میں ان کی لکھی ہوئی کتب ہمیشہ بھی بڑے شوق سے پڑھتا ہوں اور ان کی تحریروں کے حوالے ہمیشہ اپنے کالم میں شامل کرنے کو بڑا اعزاز سمجھتا ہوں ۔
بات کرنے کا جو سلیقہ اور صلاحیت انہیں رب نے عطا کی ہوئی تھی وہ بہت کم دیکھنے میں آتی ہے ۔
جس کا اندازہ ان کے ٹی وی پروگرام “زاویے” میں ان کے بیان کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے ۔
اشفاق احمد خان مرحوم اپنے ایک بابے دین محمد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں ۔
بہت اچھا بینک بیلنس ہے۔ اس کے علاوہ میرے بچے اچھے انگریزی سکول میں پڑھ رہے ہیں۔
عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے، اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے۔
میری یہ بات سننی تھی کہ انہوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کے تو نے اللّہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں ہیں ۔
میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی تو بابا جی نے کہا ! اشفاق احمدمیری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے سے خصوصی محبت تھی۔ اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے،مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا تھا ۔ میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بِنا محنت کیے ، اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں ۔
ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا ۔حسب معمول اماں آئی اور دانوں کی بک (مٹھی ) بھری کہ مرغے کو رزق دے۔
اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔ اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔
اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا اب وہ پورے صحن میں دانوں کےلیے بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا، کبھی بائیں۔ کبھی شمال، کبھی جنوب۔ سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اُسکا پیٹ بھی نہیں بھرا ۔ بابا دین مُحمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے فٹ سے جواب دیا نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا، نہ ذلیل ہوتا۔ بابا بولا بالکل ٹھیک ہے ۔یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساس برتری کی ٹھونگیں مارو گے، تو اللّہ تمہارا رزق مشکل کر دے گا اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔ تو نے اللّہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں ۔رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔ بابا عجیب سی ترنگ میں بولا ! پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا ،ان کی تعریف کرنے والا، ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو مُعاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو اب بندوں کی محبت کے ساتھ ساتھ شُکر کے آنسو بھی اپنی منزل میں شامل کرلو تو امر ہو جاؤ گے۔ یہ کہہ کر بابا دین مُحمد تیزی سے مین گیٹ سے باہر نکل گیا اور میں سر جھکا ئے زارو قطار رو رہا تھا اور دل ہی دل میں رب العزت کا شُکر ادا کر رہا تھا کہ بابا دین محمد نے مُجھے کامیابی کا راز بتا دیا تھا۔ہمارے اباجی ایازخان صاحب کہتے تھے اللہ ناشکری پسند نہیں کرتا اس لیے شکر کو عادت بنا لو ۔حقوق العباد کی ادئیگی دراصل شکر ادا کرنے کا وہ ذریعہ ہے۔ خدمت انسانیت شکر گزاری کا عملی مظاہرہ ہے جو رزق میں برکت کا باعث بنتا ہے ۔لوگوں کا خیال رکھو تمہارا خیال رکھا جاۓ گا۔شکر صرف الفاظ سے نہیں اپنے کردار و عمل سے ادا کرو کیونکہ وہ ذات پاک ہماری نیتوں کے حال بھی خوب جانتی ہے ۔کہتے ہیں کہ جس نے کم میں جینا سیکھ لیا اسے کبھی کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ایک بزرگ کے بقول “ملتا تو بہت کچھ ہے اس زندگی میں بس ہم گنتی اسی کی کرتے ہیں جو حاصل نہیں ہو سکا “
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے رزق میں موجودہ تنگی اور مایوسی اور بیماریوں کی وجہ رب کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری کے ساتھ ساتھ حسد ،گمان ،تکبر ،تجسس،غیبت ،احساس برتری ،لالچ ،ہوس زر کی بڑھتی خواہش جیسی عادتیں ہی ہوتی ہیں ۔ ناشکری کی یہ ٹھونگیں ہمارا رزق بکھیر کر محدود کر دیتی ہیں اللہ ہمیں اتنا کچھ دۓ رہا ہے جو ہمیں کبھی نظر نہیں آتا بس وہ نظر آتا ہے جو ہمارے پاس نہیں ہوتا۔اس لیے شکر کی بجاۓ شکوہ ہماری عادت بن جاتی ہے ۔آج تک کوئی یہ جان سکا کہ لامحدود خوابوں اور خواہشوں کے کتنے اور کیسے کیسے رنگ ہوتے ہیں ؟ذرا سوچیے کہ ہمارے رب نے ہمیں بہت سی ایسی نعمتیں عطا کی ہیں جن کا بہت سے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ہمارے استاد فرمایا کرتے تھے کہ اگر آپ کو صحت کی بادشاہی اور بےفکری میسر ہے تو سمجھ لیں آپ کو دنیا کی سب سے بڑی نعمت میسر ہے اور آپ دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں ۔ذرا نابینا ،بہرے ،معذور ،بیمار ،لاچار کی مشکلات کا تصور کریں اور شکران نعمت ادا کرتے رہیں ۔ دو وقت کاکھانا ،جسم پر کپڑے ،اولاد کا سکون اور زمین پر چلنے پھرنے کی آزادی میسر ہے تو دوسروں کی نعمتوں کی جانب للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا اپنے رب کی ناشکری ہی تو ہے ۔صرف یہی دیکھنا کہ دوسروں کے پاس کیا ہے؟ یہ نہیں سوچتے کہ ہم پر اس رب کا کتنا کرم ہے ؟ اسی لیے قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ “انسان بڑا ناشکرا ہے “فرمایا “اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے اگرتم اللہ کے احسان گننا چا ہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے ،یقینا” انسان بڑا ہی بےانصاف اور ناشکرا ہے ” (سوۃ ابراہینم) ہم سب حاصل اور لا حاصل کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں عجیب بات ہے حاصل کی ناقدری اور لاحاصل کی یہ حسرت ختم ہی نہیں ہوپاتی آخر ایسا کیوں ہے ا؟ آپا بانو قدسیہ کہتی ہیں انسان حاصل کی تمنا میں لا حاصل کے پیچھے دوڑتا ہے کسی ایسے بچے کی طرح جو تتلیاں پکڑنے کے مشغلے میں گھر سے بہت دور نکل جاتا ہے نہ تتلیاں ہی ملتی ہیں اور نہ پھر واپسی کا راستہ ،،، ایسا نہ ہو کہ ہماری واپسی کا راستہ ہی کھو جاے ٔ ؟ اس لیے انتظار کرو ہر اس چیز کے لیے جو اللہ تمہیں دینا چاہتا ہے ،کیا پتہ جو تم مانگ رہے ہو وہ تمہارے لیے نہ ہو اور شکر ادا کرتے رہو اسکی عطاکردہ نعمتوں کا ہر ہر وقت اور ہر ہر لمحے اور پانچ وقت نماز اللہ کا شکر ادا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔بعض اوقات دعا اور شکر آپکی تقدیر تو نہیں بدلتے مگر آپ کے دل کو بدل کر اللہ کے ارادوں کے مطابق کردیتے ہیں ۔اگر “کن “اس کا حکم ہے تو “فیکون ‘اس کی محبت کا اظہار ہے ۔شکر ادا کرنے کے چار طریقے بیان کئے جاتے ہیں ۔دل سے ،زبان سے ،نعمتوں کے مثبت استعمال سے ،اور مخلوق خدا کی خدمت سے ، قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ “اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے ” (سورۃ ابراہینم) اللہ تعالیٰ ہمیں شکر گزاری اور بہترین معاشرے کی تشکیل دینے کی توفیق عطا فرماے ٔ آمین !اور اللہ اور اسکے بندوں کے شکرگزار ہونے کے لیے جزاک اللہ خیرا” کہنے کو اپنی عادت بنالیں ۔کیونکہ فرمان نبوی ہے کہ “جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ پاک کا شکرگزار نہیں ہو سکتا “