شارح، مترجم، نقاد، ادیب اور استاد شاعر ”صوفی تَبسّم“ کا 126واں یومِ ولادت

تحریر: ڈاکڑ فوزیہ تبسم

7

نام صوفی غلام مصطفی اور تخلص تبسّم ہے۔4اگست 1899ءکو امرتسر، پنجاب برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ لاہور کے تعلیمی اداروں سے بطور استاد وابستہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں سے منسلک رہے۔صوفی تبسّم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، شاعر، استاد، شارح، مترجم، نقاد اور ادیب ان کی شخصیت کی مختلف جہتیں تھیں، پہلے اصغر پھر تبسّم تخلص کیا۔ ان کی اردو اور فارسی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ انہوں نے بچوں کی شاعری کے حوالے سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کا تخلیق کردہ کردار ٹوٹ بٹوٹ انہیں بچوں کے ادب میں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔انہیں حکومت ایران نے نشانِ سپاس اور حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔07فروری 1978ءکو صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم، لاہور، پاکستان میں وفات پاگئے۔وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
استاد شاعر صوفی تبسّم کے یومِ ولادت منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی
دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی

آج تبسم سب کے لب پر
افسانے ہیں میرے تیرے

اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے
بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی

ایسا نہ ہو یہ درد بنے درد لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

ایک شعلہ سا اٹھا تھا دل میں
جانے کس کی تھی صدا یاد نہیں

جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں
ہم ہوئے کیسے جدا یاد نہیں

جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے
درد کے عنواں بدل کر رہ گئے

دلوں کا ذکر ہی کیا ہے ملیں ملیں نہ ملیں
نظر ملاو¿ نظر سے نظر کی بات کرو

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام
کہاں میں کہاں یہ مقام

ملتے گئے ہیں موڑ نئے ہر مقام پر
بڑھتی گئی ہے دوریاں منزل جگہ جگہ

میں تحفہ لے کے آیا ہوں تمناو¿ں کے پھولوں کا
لٹانے کو بہار زندگانی لے کے آیا ہوں

کتنی فریادیں لبوں پر رک گئیں
کتنے اشک آہوں میں ڈھل کر رہ گئے

کون کس کا غم کھائے کون کس کو بہلائے
تیری بے کسی تنہا میری بے بسی تنہا

کھل کے رونے کی تمنا تھی ہمیں
ایک دو آنسو نکل کر رہ گئے

کیا کیا فراغتیں تھیں تبسم ہمیں کہ جب
دل پر کسی کی یاد کا سایہ پڑا نہ تھا

غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہوگا
اس بھری بزم میں کوئی تو ہمارا ہوگا

وفا کی آخری منزل بھی آ رہی ہے قریب
جو اس جگہ بھی نہ تو مل سکے تو میرے نصیب

تری محفل میں سوزِ جاودانی لے کے آیا ہوں
محبت کی متاعِ غیر فانی لے کے آیا ہوں

ہزار گردشِ شام و سحر سے گزرے ہیں
وہ قافلے جو تری رہِ گزر سے گزرے ہیں

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی

تیرے ہونٹوں کی خفی سی لرزش
اک حسیں شعر ہوا ہو جیسے

یہی ہے اب آرزو تبسم کہ دم نکل جائے آہ کرتے
کہ تابِ اظہار الفتِ یار شیوآشنا نہیں ہے

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.