یکم مئی کا دن ان گمنام محنت کشوں کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے شکاگو کی سڑکوں پر خون دے کر دنیا کو یہ باور کروایا کہ محنت کا بھی حق ہوتا ہے، اور مزدور صرف کام کرنے والی مشین نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا انسان ہے جسے سکون، تحفظ اور عزت کی زندگی درکار ہے۔
1886ء کے شکاگو میں جب مزدوروں نے آٹھ گھنٹے کے کام، آٹھ گھنٹے کے آرام اور آٹھ گھنٹے کی ذاتی زندگی کا مطالبہ کیا تو ان پر گولیاں برسائی گئیں۔ مگر وہ لہو تاریخ کا وہ باب لکھ گیا جو آج دنیا کے ہر محنت کش کے لیے تحریک بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان جیسے ممالک میں یہ دن محض ایک سرکاری تعطیل اور رسمی بیانات کی حد تک محدود ہو چکا ہے۔ مزدور کی زندگی میں نہ کوئی بہتری آتی ہے، نہ ہی اس دن کے تقدس کا اُس کی حالت پر کوئی اثر پڑتا ہے۔
مزدور آج بھی چوک پر کھڑا مزدوری کی تلاش میں ہے۔ اس کے ہاتھ میں اوزار ہے مگر دل میں بےیقینی۔ اس کے گھر میں چولہا تب جلتا ہے جب روزی ملے، اور وہ روزی اکثر استحصال، تحقیر اور بے قدری کے ساتھ آتی ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ طبقاتی منافقت کا شکار ہے۔ ہم مزدور سے خدمت لیتے ہیں مگر اسے عزت دینے سے گریزاں ہیں۔ وہ ہاتھ جو سڑکیں، عمارتیں اور فصلیں بناتے ہیں، وہی ہاتھ غربت میں جکڑے ہوتے ہیں، ان کے لیے نہ سوشل سیکیورٹی ہے، نہ طبی سہولت، نہ تعلیم اور نہ آرام کا کوئی تصور۔
عورت مزدور کی حالت اور بھی تشویشناک ہے۔ وہ اینٹوں کے بھٹوں پر، کھیتوں میں اور گھروں میں دہرا بوجھ اٹھاتی ہے۔ نہ اس کے پاس قانونی تحفظ ہے نہ سماجی وقار۔ دیہی علاقوں میں مزدور عورتیں اپنی شناخت کے بغیر کام کرتی ہیں، جہاں ان کی اجرت، وجود اور عزت تینوں غیر یقینی ہوتے ہیں۔
یومِ مزدور ہمیں صرف ایک تاریخ یاد رکھنے کا دن نہیں، بلکہ اس ناانصافی پر نظرثانی کا موقع دیتا ہے جو ہم نے محنت کش طبقے کے ساتھ روا رکھی ہے۔ اگر ہم واقعی اس دن کو معنویت دینا چاہتے ہیں تو محض جلسوں، قراردادوں اور اخباری بیانات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ قانون کی عملداری، اجرت کی ضمانت، تعلیم کی سہولت اور طبی تحفظ جیسے بنیادی حقوق کی فراہمی کے بغیر یہ دن صرف ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔
کاش ہم یہ سمجھ سکیں کہ قومیں اُن ہاتھوں سے بنتی ہیں جن میں چھالے ہوتے ہیں، نہ کہ اُن زبانوں سے جن میں صرف وعدے ہوتے ہیں۔
یومِ مزدور ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ عزت صرف لباس یا دفتر سے نہیں، بلکہ پسینے سے آتی ہے۔ مزدور کا پسینہ وہ خوشبو ہے جو قوموں کی بنیادوں میں جذب ہوتی ہے۔
دعا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم صرف یادگار نہ بنائیں، بلکہ اپنے نظام میں ایسے اقدامات کریں جو ہر محنت کش کو اُس کی محنت کا پورا صلہ دیں۔ وہ صلہ جو صرف تنخواہ نہیں، بلکہ عزت، تحفظ اور فخر کا احساس ہو۔