پھولوں کا شہر۔۔۔۔پشاور

روبرو۔۔۔۔محمد نوید مرزا

1

پشاور کو پھولوں کا شہر کہا جاتا ہے۔۔۔لیکن اس شہر کے حسن کو برباد کرنے میں جہاں دیگر بہت سی وجوہات شامل ہیں وھاں دہشت گردی کا عمل دخل بھی ہے۔2014ء میں اے پی ایس پشاور میں ہونے والی دہشت گردی نے تو کئی قیمتی جانیں لے لی تھیں۔اس خوفناک واقعے میں ڈیڑھ سو کے قریب معصوم بچے ان کے اساتذہ اور سٹاف کے اراکین نے جام شہادت نوش کیا۔ظلم کی انتہا کر دی گئی تھی۔ملک دشمن عناصر سکول کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور سکول کے معصوم طلباء کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔میں نے اس سانحے کے پس منظر میں ایک ناول ،زندہ ہیں شاہین تحریر کیا تھا اور اس سانحے کی پہلی برسی کے موقع پر 2015ء میں بیاد شہداء ایک تقریب میں پشاور گیا تھا۔جس میں معصوم بچوں کے لواحقین نے بھی شرکت کی۔
پچھلے دنوں دس سال کے بعد برادر عزیز جناب شہزاد اقبال رانا کی بیٹی کے نکاح کے سلسلے میں ایک بار پھر پشاور جانا ہوا تو ایک لمحے کے لئے وہی پرانے زخم پھر تازہ ہو گئے۔تاہم اب پشاور دہشت گردی سے محفوظ ہو چکا ہے لیکن سرحد میں اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں،ان معاملات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔تاہم میری نظر میں علی امین گنڈا پور کی قیادت میں خیبر پختونخوا میں بہترین حکومت چل رہی ہے۔سیاسی ،سماجی ،معاشی اور معاشرتی طور پر سرحد درست سمت پر گامزن ہے،تاہم پشاور میں ٹریفک قانون خاصے کمزور نظر آئے،پنجاب میں تو ہیلمٹ کے بغیر جرمانے ہوتے ہیں اور وھاں تو ٹریفک کے نظام کو کنٹرول کرنے والے ہی کم نظر آتے ہیں۔
ان چند دنوں میں میری ملاقات یا ٹیلی فونک رابطہ کئی شاعروں اور ادیبوں سے ہوا۔معروف شاعر جناب ظفر محی الدین کی محبتوں کا ممنون ہوں جو مجھے گھر سے اپنے دفتر لے گئے ،جہاں دو تین گھنٹے قیام و طعام رہا ،تبادلہء کتب بھی ہوا اور شعر وادب کی محفلیں بھی سجیں۔اگلے دن بھائی اسحاق وردگ شادی ہال تشریف لے آئے ،جہاں ان سے طویل نشست رہی ۔اسحاق وردگ سرحد ہی کے نہیں ملک کے معروف نوجوان شاعر ہیں۔جن کی شاعری کا ایک مجموعہ شائع ہوچکا ہے اور دوسرا زیر اشاعت ہے۔اسحاق بھائی سپئیریر سائنس کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں،جہاں کے ایک طالب علم محمد اسامہ نے میرے سانحہء پشاور کے حوالے سے لکھے گئے ناول،زندہ ہیں شاہین پر بی ایس کا مقالہ لکھا ہے،اسحاق بھائی نے مجھے اس مقالے کی کاپی اور کالج کا مجلہ بھی عنایت فرمایا جس میں میری نعت شائع ہوئی ہے۔۔۔دو شعر ملاحظہ کریں۔۔۔

جب مدینے میں شام ہوتی ہے
روشنی ہم کلام ہوتی ہے

بٹ رہی ہے تمام امت میں
ان کی رحمت تو عام ہوتی ہے

میں نے نوجوانی کے دنوں میں پشاور میں ملازمت کے سلسلے میں ڈیڑھ برس گذارے ہیں۔وھاں جن دو شاعروں سے میری ملاقات رہی ان میں ایک غلام محمد قاصر مرحوم تھے جن کی وفات کو طویل عرصہ گذرا،انھوں نے مجھے اپنا شعری مجموعہ،آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے عطا کیا تھا ان کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو کچھ یوں تھا۔۔۔۔

تم ناحق ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

دوسری ہستی کا نام جناب عزیز اعجاز ہے ،جو ان دنوں پی ٹی وی پشاور کے پروڈیوسر تھے،آپ ایک عمدہ شاعر اور انسان دوست شخصیت ہیں۔میں نے انھیں فون کیا تو وہ مجھے آواز سے ہی پہچان گئے تاہم شادی کی مصروفیات کی وجہ سے مل نہیں سکا۔ان کا ایک شعر بھی میرے حافظے میں محفوظ ہے۔۔۔

جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے

اسی طرح بچوں کے نامور ادیب راج محمد آفریدی سے بھی ٹیلی فونک رابطہ رہا ۔یوں پشاور شہر کا یہ تین روزہ ہنگامی دورہ اختتام پذیر ہوا اور ہم اپنی فیملی سمیت گھر واپس پہنچے۔ان تین دنوں میں پشاور کی خوبصورت سڑکوں کو بھی دیکھا اور شکستہ عمارتوں کا بھی جائزہ لیا۔کینٹ اور ڈی ایچ اے بہترین ہے لیکن شہر کی حالت خاصی ابتر ہے،جس کو جدید وقت کے تقاضوں کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔عزیزوں،رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور پشاور کی سوغات کابلی چنا پلاؤ اور قہوے سے بھی لطف اندوز ہوئے۔یوں یہ ایک بہترین سفر تھا،جو برسوں یاد رہے گا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.