ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں محبت کا اظہار مردہ جسموں سے کیا جاتا ہے، اور زندہ دلوں کو تنقید، بےرخی اور الزام کے خنجر سے چیر دیا جاتا ہے۔
ہم زندوں کے احساسات کو ریزہ ریزہ کرتے ہیں، اور جب وہ خاموش ہو جائیں، یا کسی دن ہار مان کر اس دنیا سے رخصت ہو جائیں تو ان کے لیے آنکھوں سے برستی برسات کو “وفا” کا نام دے دیتے ہیں۔
یہ ہمارا المیہ ہے…
کہ ہم ماں کی تھکن کو تو نہیں دیکھتے، مگر جب وہ بسترِ مرگ پر ہو، تب اس کے پاؤں دبانے کی تمنائیں جاگتی ہیں۔
ہم باپ کی خاموش قربانیوں کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر قبر پر پھول چڑھاتے ہوئے آہیں بھرتے ہیں۔
ہم اپنی بہن، بیٹی، بیوی کو جیتے جی تسلیم نہیں کرتے، ان کی خواہشوں کو نافرمانی، ان کے خوابوں کو بغاوت، اور ان کی آواز کو گستاخی قرار دیتے ہیں۔
مگر جب وہ گلا گھونٹ کر خاموش کر دی جائیں، تو ہم سوشل میڈیا پر ان کی تصویریں شیئر کر کے خود کو انسان ثابت کرنے لگتے ہیں۔
کیا یہ عجیب تضاد نہیں؟
کہ جو سانس لیتے ہیں، ان کی تکلیف ناقابلِ برداشت لگتی ہے لیکن جو مر جائیں، ان کے ساتھ جڑی ہر تلخی بھلا دی جاتی ہے؟
کیا یہ ہماری ریاکاری نہیں کہ ہم زندہ انسانوں سے خلوص اور محبت چھین لیتے ہیں، اور پھر ان کے نہ ہونے کا سوگ رچا کر دنیا کو اپنی حساسیت دکھاتے ہیں؟
گھروں میں ایسی بیٹیاں موجود ہیں جو دن رات ماں باپ کے لیے تڑپتی ہیں، لیکن ان کی ایک بات کو “زبان درازی” کہا جاتا ہے۔
ایسے شوہر موجود ہیں جو بیوی کی ایک تھکن نہ سمجھ سکے، لیکن اس کے مرنے کے بعد ہر تعزیتی محفل میں سب سے زیادہ آبدیدہ وہی نظر آتے ہیں۔
اور ماں باپ بھی — بیٹوں کو روکتے ہیں، بیٹیوں کو توڑتے ہیں، اور جب وہ گھر چھوڑ جائیں تو ان کی تصویر کو چوما جاتا ہے۔
محبت، وقت پر دی جائے تو دوا بنتی ہے،
تاخیر سے ملے تو ضمیر کا بوجھ۔
ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ انسان مرنے سے پہلے بھی محبت کے قابل ہوتا ہے۔
زندہ لوگ بھی تھپکی کے طلبگار ہوتے ہیں، دعاؤں کے، دعا کے ہاتھوں کے، اور چند تسلیم شدہ لمس کے۔
ہم ایک ایسی زمین پر بستے ہیں جہاں انسان کی قدر اس کے مرنے کے بعد جاگتی ہے۔ جہاں محبت کے پھول مرقد پر کھلتے ہیں، مگر زندگی میں وہی پھول کانٹوں سے بڑھ کر محسوس ہوتے ہیں۔ یہاں سانس لیتا وجود کھٹکتا ہے، اور خاموش وجود یادوں کا سرمایہ کہلاتا ہے۔
یاد ہے مجھے…
امی بیمار تھیں، اکثر راتوں کو جاگتی تھیں۔ میں پاس بیٹھتی، پانی دیتی، دعائیں پڑھتی۔ مگر کئی بار ان کے بولنے کے انداز پر میری پیشانی پر بل آ جاتا، کئی بار دل میں یہ خیال آتا کہ “کب تک؟”
اور پھر جب وہ ایک دن خاموش ہو گئیں — تو ان کے وہی جملے کانوں میں گونجتے رہے جنہیں کبھی نظرانداز کر دیا تھا۔
تب آنکھوں کے آنسو میرے خلوص کے گواہ نہیں، میرے ضمیر کے مجرم بن گئے۔
ہم سب کے پاس ایک “ایسا لمحہ” ہوتا ہے…
جب کسی کے جیتے جی ہم نے اس کی تڑپ کو سمجھنے کے بجائے اس پر تنقید کی۔
کبھی بہن کو کہا، “ہر وقت روتی رہتی ہو!”
کبھی دوست کی طویل خاموشی کو نظرانداز کیا، اور جب وہ اس خاموشی کے صحرا میں گم ہو گیا تو اس کی آخری پوسٹ پر تبصرہ لکھا:
“کاش تم نے بتایا ہوتا…”
ہمارے پاس وقت ہوتا ہے، مگر ہم مصروف ہوتے ہیں۔
ہمارے پاس لفظ ہوتے ہیں، مگر ہم انا میں ڈوبے ہوتے ہیں۔
ہمارے دل میں محبت ہوتی ہے، مگر ہم اظہار سے شرمندہ ہوتے ہیں — اور پھر… وہی اظہار ایک دن قبر پر سسکیوں کی شکل میں نکلتا ہے۔
میرے جاننے والی ایک لڑکی زویا…
وہ ہمیشہ مسکراتی رہتی، کسی کو اپنے دل کے بھید نہ دیتی۔
ایک دن اس نے لکھا:
“مجھے کسی سے کچھ نہیں چاہیے، بس خدارا مجھے سن لو، کچھ مت کہو، بس سن لو…”
میں نے تب یہ سوچ کر نظرانداز کر دیا کہ شاید کوئی شاعری ہے، کوئی افسانوی انداز۔
لیکن کچھ دن بعد وہ واقعی خاموش ہو گئی ہمیشہ کے لیے۔
تب اندازہ ہوا کہ جو لوگ زیادہ مسکراتے ہیں، وہ اندر سے سب سے زیادہ چیختے ہیں۔
اور جو سب کو ہنسانے میں ماہر ہوتے ہیں، وہ اکثر خود کو سب سے زیادہ توڑ چکے ہوتے ہیں۔
ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ محبت کا سب سے خوبصورت رنگ “بر وقت” ہوتا ہے۔
خاموشی کو محسوس کر لینا ہی اصل انسانیت ہے۔
زندہ انسان کے زخم پر ہاتھ رکھنا قبر پر پھول رکھنے سے کہیں بہتر ہے۔
ہمیں لفظوں کے طمانچوں سے پہلے لمس کی شفا دینا سیکھنا ہوگا۔
یہاں میں ایک واقعہ ضرور شامل کرنا چاہوں گی۔میں اپنی امی جی کی قبر پر دعا کر رہی تھی کہ ساتھ ہی مجھے ایک لڑکی دکھائی دی۔۔۔۔۔
شام ڈھل چکی تھی۔ قبرستان میں ہلکی سی نمی تھی۔ درختوں کی پتیاں ہوا میں لرز رہی تھیں، جیسے وہ بھی کچھ کہنے کو بےتاب ہوں۔
ایک نوجوان لڑکی، اپنے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھتی، ایک پرانی قبر کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ہاتھوں میں ایک موبائل تھا جسے وہ بار بار آن کرتی، اور پھر بند کر دیتی۔
آخرکار ہمت کر کے ایک وائس نوٹ پلی کیا۔
“با جی… آپ کو برا لگتا ہوگا نا جب میں بار بار فون کرتی ہوں؟ بس دل گھبراتا ہے۔ نیند نہیں آتی۔ کسی سے بات کرنے کا دل کرتا ہے… پلیز جب وقت ملے، سن لینا… اور کبھی مجھے بھی گلے لگا لینا…”
آواز ختم ہوئی۔ قبر کی مٹی کچھ بھی نہ بولی۔
لڑکی نے خاموشی سے وہی وائس نوٹ ایک بار پھر سنا، اور پھر وہی مٹی اپنے چہرے پر ملتے ہوئے دھاڑیں مار کر رو دی۔
لیکن اب وقت گزر چکا تھا۔
اب وہ صرف سن سکتی تھی۔
جواب نہیں آنا تھا۔
میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی ہے کہ واقعی ہم لوگ زندہ انسانوں