میں اکیلا؟

جمع تفریق۔۔۔ناصر نقوی

4

نظام قدرت ہے کہ انسان اس دنیا فانی میں اکیلا آ ئے کہ جڑواں، اس کی واپسی کسی حادثے کے بغیر اکٹھے نہیں ہو سکتی، اسی طرح حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ اکثر جڑواں آ نے والے بھی اکیلے ہی ہو جاتے ہیں، اسے آ پ معاشرتی المیہ قرار دیں یا کچھ اور کہیں، یہ آ پ کی مرضی آ دم دادوں کی اکثریت دنیا میں اکیلے ہی آ تی ہے اور پھر دنیاوی دستور میں ہزاروں لاکھوں جتن کر کے بھی اکیلے ہی واپس لوٹ جاتی ہیں حالانکہ ہر اکیلا آ نے والا بھی اپنی عقل و دانش ،زندگی اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ارد گرد سے مختلف حیلے بہانے سے ہجوم اکٹھا کرتا ہے ان لوگوں سے کوئی خونی رشتہ ہو کہ صرف انسانی،انھیں نہ صرف اپنا ہمدرد اور مددگار سمجھتا ہے بلکہ خود بھی اس کا رویہ دوسروں کے لیے بھی ایسا ہی ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر رشتہ کہیں نا کہیں مان توڑ دیتا ہے اور ھر تعلق کبھی نہ کبھی بھرم کھو دیتا ہے ،پھر بھی کہنے والے کہتے ہیں کہ اصلی اور نسلی ایسا نہیں کرتے، ہر شخص اپنے تجربات اور مشاہدات میں دوسروں کو پرکھنے کی کوشش کرتا ہے پھر بھی مار کھا جاتا ہے اس لیے کہ ہر بندے کا پیمانہ مختلف ہوتا ہے اس کی تعلیم و تربیت، یار دوستوں کی صحبت اور خاندانی روایات آ ڑے آ جاتیں ہیں کیونکہ سب کے سب خود عقلمند ہیں اور دوسروں کو بے وقوف سمجھتے ہیں، پہلے بلند بانک دعوے اور جب ناکامی کا سامنا کرنا پڑ جائے تو ڈھیٹ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ۔۔
میں نے اس کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جا سکتا تھا
لیکن پھر بھی دو آ نکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا۔۔۔
میرے خیال میں اس کی وجہ آ دم زادوں کی خود نمائی،خود فریبی ، ان دیکھے خوابوں میں جینے اور خواہشوں کی غلامی ہے، ایسے لوگ سچ مچ بھری دنیا میں اکیلے ہی ہوتے ہیں حالانکہ ان کے دائیں بائیں آ گے پیچھے بہت سے لوگ قدم سے قدم ملا کر چلنے والے دکھائی دیتے ہیں، پھر بھی اگر کوئی اکیلا ہو تو یقینا یہ المیہ ہے، زندگی زندہ دلی ہی نہیں، ایک دوسرے سے پیار محبت اور احساس انسانیت کا نام ہے لیکن جہاں مطلب پرستی، مفادات اور دوسرے کو فتح کرنے کی تمنا پیدا ہو جائے، وہاں زندگی کا مقصد ہی بدل جاتا ہے ایسے لوگ دنیاوی فتوحات، مال و زر حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جائز ناجائز میں فرق محسوس نہیں کر پاتے، دو آ نکھیں اور دل و دماغ کے مالک ہوتے ہوئے بھی وہ عقل کے اندھے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے سوا کوئی دوسرا نظر نہیں آ تا، ان کی تمام تر توجہ اپنی ذات ہوتی ہے پھر بھی جوں جوں عمر بڑھتی ہے وہ اکیلے رہ جاتے ہیں اپنے تجربات اور مشاہدات نئی نسل پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کوئی ان پر کان اس لیے نہیں دھرتا کہ زمانہ اپنا انداز بدل چکا ہوتا ہے پھر سب کچھ کرنے کے بعد بھی میں اکیلا، تو اکیلا، وہ اکیلا؟ کا راگ الاپا جاتا ہے ،ماضی میں جھانکیں تو کوئی اکیلا دکھائی نہیں دے گا، مشترکہ خاندانی سسٹم میں سب بندھے ہوئے تھے کوئی غریب ،متوسط ہو کہ امیر؟ سب مشترکہ وراثت سمجھی جاتی تھیں، اسی لیے سب کو ایک دوسرے کی فکر لاحق ہوتی تھی، رشتوں کا یہ مضبوط بندھن خون کا بھی محتاج نہیں ہوتا تھا، محلے دار، ہمسائے، گلی بازار والے بھی ،،مامے چاچے،، کہلاتے تھے، ہر کسی کو بڑوں کے احترام کے ساتھ بچوں کی اصلاح کے لیے،، مار پیٹ،، کا لائسنس بھی حاصل ہوا کرتا تھا ،ماں باپ تعلیم و تربیت کے لیے سکول بچے کو داخل کرانے جاتے تو ان کا یہ بیان مستند شمار کیا جاتا کہ ،،ہڈیاں ہماری، کھال چاہے اتار دیں، پھر ترقی ہو گئی تعلیمی انداز بدلے تربیت کا خانہ بند کر دیا گیا اور حالات یکسر تبدیل ہو گئے اب تو سرکاری اداروں پر بھی بورڈ آ ویزاں ہیں کہ،، مار نہیں پیار،، لہذا ڈنڈا پیر کا زمانہ ماضی کا حصہ بن گیا، موجودہ دور جدید آ ئی۔ ٹی اور اطلاعات کا دور ہے، پھر بھی بھیڑ چال چل رہی ہے جس کے منہ میں جو آ ئے کہہ دے، ذمہ داری کوئی نہیں، اگر ،،فیک نیوز اور افواہ،، پھیلانے پر کوئی کاروائی ہو جائے تو آ زادی اظہار پر قدغن کا پھڈا، پہلے کہا جاتا تھا کہ اگر کسی کو اکیلا دیکھو تو سمجھ جاؤ کہ وہ سچا انسان ہے کیونکہ بھیڑ تو ہمیشہ منافقوں کے ارد گرد ہوتی ہے لیکن اب ایسا ہرگز نہیں، صاحب رائے اور سچا انسان تو منظر سے غائب ہو چکا ہے اور ہر کوئی اپنی عقل و دانش، منصوبہ بندی، خواہشات اور مفادات میں دائرہ در دائرہ اکیلا ہے ،کون کھرا؟ کون کھوٹا ھے؟ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ زمانے نے ایسی تیزی سے ترقی کی کہ ہر کسی کے چہرے پر کئی چہرے سجے ہوئے ہیں ایسے میں صرف اللہ کریم کی ذات ہے کہ جس کا آ سرا ہمیشہ قائم رہتا ہے اور جس بندے کا اس سے رشتہ مضبوط، وہ اکیلا بھی سب پر بھاری ہوتا ہے کیونکہ سب سے بڑی دولت ہے یقین، اللہ نظر نہیں آ تا لیکن اس کے ہونے کا ،اس کی قدرت کا، اس کے اختیار کا ،اس کی محبت کا ،اس کے سننے کا، اس کے سن کر سمجھنے کا ، اس کے دینے کا یقین اور مالک کائنات کو یقین سے بھرے دل بہت پسند ہیں جو ہر غم اور ہر مشکل میں کہتے ہیں کہ،، اللہ ہمارے ساتھ ہے،، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہالت گہری نیند کی طرح ہوتی ہے جگانے والے پر غصہ ضرور آ تا ہے بالکل اسی طرح کہ جب دلیل نہ ہو تو جھگڑا ہو جاتا ہے، کائنات کے رب نے کسی کو اکیلا نہیں چھوڑا، یہ ا کلاپا ذہنی بیماری اور ذاتی سوچ کا شاہکار ہے ورنہ رحمان شہ رگ سے قریب اور شیطان بھی موجود، اب یہ حضرت انسان کی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.