اوورسیز پاکستانی، ملک کا سرمایہ

تحریر ۔۔۔ مرزا روحیل بیگ ( مکتوب جرمنی )

3

بلاشبہ سمندر پار پاکستانی قومی معیشت کے لیئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کے حامل ہیں۔ وہ نہ صرف زرمبادلہ بھیج کر ملک کی مالی حالت کو مضبوط کرتے ہیں ، بلکہ اپنے اپنے میزبان ممالک میں پاکستان کے سفیروں کی حیثیت سے بھی کام کرتے ہیں۔
اوورسیز کنونشن کے انعقاد سے سمندر پار مقیم پاکستانیوں کو وزیراعظم اور حکومتی حکام سے روابط کے فروغ کا ایک منفرد موقع فراہم کیا ہے، کنونشن کے انعقاد کا مقصد اوورسیز پاکستانیوں کو یہ اطمینان دلانا تھا کہ وہ ہمارے دلوں کے قریب ہیں۔ وزیراعظم نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیئے مراعاتی پیکج کا اعلان بھی کیا، جس کے تحت میڈیکل کالجز میں پندرہ فیصد کوٹہ رکھا جائے گا۔ اوورسیز پاکستانیوں کے 5 ہزار بچوں کو ہنر سکھایا جائے گا، سمندر پار پاکستانیوں کے لیئے سرکاری ملازمتوں میں عمر کی حد میں پانچ سال کی چھوٹ ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کے لیئے خصوصی عدالتیں قائم کر دی گئیں ہیں۔ نئے قانون کے تحت بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق مسائل سننے کے لیئے خصوصی عدالتیں قائم کی گئی ہیں، عدالت کے تیز رفتار طریقہ کار سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں اعتماد بحال ہو گا۔ اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف نے جس جرات مندانہ انداز میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا عزم دہرایا، وہ نہ صرف عسکری قیادت کے بلند حوصلے کی علامت ہے بلکہ ایک قومی عزم کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوورسیز صرف پاکستان کے سفیر نہیں بلکہ یہ وہ روشنی ہے جو اقوام عالم پر بھی پڑتی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فروری 2025 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر میں 4 فیصد اضافہ ہوا جس سے معیشت، حکومتی ذخائر اور درآمد کنندگان کے لیئے لیکویڈیٹی کو انتہائی ضروری مدد ملی۔ مارچ 2025 میں سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے چار ارب ایک کروڑ ڈالر کی ریکارڈ ترسیلاتِ زر موصول ہوئیں۔ یہ ترسیلاتِ زر گزشتہ مارچ 2024 کی ترسیلاتِ زر سے 26 فیصد زیادہ جبکہ پچھلے پانچ سالوں کی ماہانہ اوسط سے دوگنا ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیئے خصوصی اقدامات کر رہے ہیں۔ ترسیلاتِ زر میں اضافہ کرنے والے اوورسیز پاکستانیوں کی پاکستان کے اندر تمام مشکلات کا ازالہ ہونا چاہیئے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو پریشانیوں اور مشکلات سے نجات دلا کر حکومت ان کے لیئے سہولت تو پیدا کرے گی لیکن اس کا زیادہ فائدہ ان افراد کی بجائے ملک کو پہنچے گا۔ ملک کی معاشی ترقی کے لیئے اداروں کا فعال، شفاف اور دوراندیش ہونا لازمی ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ مضبوط ادارے ہی مضبوط معیشت کی بنیاد ہوتے ہیں۔ پاکستانی معیشت کی ریٹنگ میں بہتری اقوام عالم کا پاکستانی معیشت پر اعتماد کا مظہر ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وطنِ عزیز کا نظام، اُن کے ساتھ محض زرِمبادلہ کے رشتے سے نہ جُڑا ہو بلکہ ایک ایسا تعلق قائم ہو جو سہولت، عزت، شمولیت اور انصاف پر مبنی ہو۔ اُن کی توقعات کوئی غیر معمولی نہیں وہ صرف چاہتے ہیں کہ انہیں بھی وہی ریاستی خدمات دی جائیں جو ملک میں موجود کسی شہری کو حاصل ہیں، چاہے وہ خدمات شناختی کارڈ کی تجدید سے ہوں یا تعلیمی اسناد کی تصدیق سے، جائیداد کی ملکیت ہو یا قانونی معاونت، ریکارڈ تک رسائی ہو یا معلومات کی فراہمی۔ انفرادی حیثیت میں سمندر پار پاکستانی پاکستان میں سب سے بڑے سرمایہ کار ہیں، جو ملکی معیشت کو رواں رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں مگر آج تک اس اثاثے کو یکجا کرنے اور ملکی و قومی مفاد میں استعمال کرنے کی فکر پیدا نہیں ہو سکی۔ اس ضمن میں اوورسیز کنونشن درست سمت میں پہلا قدم ہے، جو سمندر پار پاکستانیوں کو مجتمع کرنے اور بیرونِ ملک رہتے ہوئے انہیں ملکی مفاد کیلئے بروئے کار آنے کی تحریک دے سکتا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.