ماں کی یاد میں

اے ار طارق بے تکی باتیں artariq2018@gmail.com 03024080369

2

رمضان المبارک کی آمد آمد ہےاور ماں کی یاد آرہی ہے اور بے تحاشہ آرہی ہے اور رو رو کر برا حال ہے ۔سسکیوں اور آہوں کی اک بارش ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔سب کچھ پاس ہے بس ماں کی کمی محسوس ہو رہی ہے اور بہت زیادہ ہو رہی ہے اور سکون قلب ذرا سا بھی نہیں ہے۔اب تو ایسے لگتا ہے جیسے جاتے جاتے ماں سب کچھ اپنے ساتھ لے گئی ہے ۔اب تو چین اک پل نہیں ہے۔ دل کو جو سکون و آرام ماں کے ہونے سے ملتا تھا اب کہاں میسر ہے ۔دوست احباب پوچھتے ہیں کہ طارق یار! کہاں گم ہو۔کیا ہوا،اب تو نظر بھی نہیں آتے ہو،کالم بھی نہیں لکھتے ہو ۔اپنے دوستوں کو کیسے بتاؤں کہ جب سے ماں نہیں رہی ایسا لگتا ہے کچھ بھی نہیں رہا ہے ۔میری ماں میرا سب کچھ تھا ۔وہ اب میری دنیا میں نہیں رہی تو اس دنیا میں کیسی بہاریں اور نظارے ۔سب کچھ اک ماں کے جانے سے یکسر ماند پڑ گیا ہے ۔ساری زندگی کی رونقیں اب ختم سی محسوس ہوتی ہیں ۔کچھ بھی تو وہ پہلے سا مزہ نہیں دیتا ہے ۔وہ چہرے کی چمک دھمک،رونق سب ماں کے ہونے سے تھی ،بن ماں اب کہاں۔اب تو بس ایک درد سا رہ گیا جس میں اچھا اور بہتر کچھ بھی نہیں ہے ۔رمضان المبارک کی آمد کی گھڑیاں قریب ہوتی تھی تو ماں کی تیاریاں دیکھنے والی ہوتی تھی ۔ہر چیز قرینے اور سلیقے سے رکھی ہوتی تھی۔رمضان کے سارے انتظامات کا جائزہ لیتی تھی ۔کس چیز کی ضرورت،کیا کم, سب پر نظر ہوتی تھی ۔رمضان کی آمد ایک بہار کی آمد کی نوید تھی۔رمضان سے پہلے ہمارے گھر رمضان ایکٹیوٹیز دیکھنے والی ہوتی تھی اور سب سے بڑھ کر رمضان میں نماز روزہ و عبادات کا خاص اہتمام اور ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی، پراٹھا، چائے ،لسی کا ملنا بہت ہی یاد آتا ہے۔صبح اور شام کے اوقات میں جہاں بھی ہونا،ماں کے پاس چلے آنا ۔ساتھ رہنا ایک حسین و خوش نصیب لمحہ تھا ۔مجھے اپنی ماں کے پاس رہنے کا سب سے زیادہ شرف حاصل رہا ہے۔میری ماں تھی ہی ایسی کہ جس کے پاس سب سے زیادہ رہنے کو دل کرتا تھا۔انتہائی باصبر،متقی،پرہیزگار عورت تھی ۔ان میں سادگی و وقار جھلکتا تھا ۔مہمانوں کی بہت زیادہ خدمت اور قدر کرنے والی تھی ۔مہمان گھر میں آتے تو زیادہ سے زیادہ چیزیں ان کے سامنے رکھنے والی تھی ۔میری والدہ کا وسیع حلقہ خواتین تھا جو بھی ان سے ملتا پھر بار بار ان سے ملنے کی تمنا کرتا تھا۔وہ ماں جس کے ہونے سے ہرچیز طریقے ،سلیقے اور قرینے سے پڑی ہوتی تھی اب ان کے جانے کے بعد سے بکھری پڑی ہیں۔ماں کی ایک سالہ بیماری سے لے کر اچانک وفات تک جیسے پڑی تھی ویسے ہی پڑی ہوئی ہے .ان کے جانے کے بعد سے گویا زندگی جامد سی ہو گئی ہے اگر بے رونق کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے ۔کچھ یوں کہ اب زندگی میں وہ چاشنی باقی نہیں رہی جو ماں ساتھ تھی۔ماں کے ہسپتال سے واپس آتے وقت جو بیٹھک کا ایک پردہ سلائی ہو رہا تھا ،ماں کی اچانک وفات کے بعد اب تک ادھورا ہی ہے ،اگے مزید سلائی نہیں ہو سکا ،ویسے ہی لٹکے کا لٹکا ہی رہ گیا ہے اور اب تک لٹکا ہی پڑا ہوا ہے بے رنگ زندگی کی طرح بے رنگ سا ۔وجہ اور کچھ نہ ہے کہ ماں کا جانا ہی سارے شوق ختم کرگیا۔ زندگی کی ساری رونقیں ماند کرگیا ۔اے زندگی تیرا اعتبار کیسا کا فلسفہ سمجھا گیا کہ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں عبرت کی جاء ہے ۔ماں سرمایہ زندگی ہوتی ہے ۔اس کو کھونے کا غم بڑا جان لیوا ہوتا ہے ۔ماں سے محبت کرنے والے بچے ہی یہ غم سمجھتے ہیں اوربہت کم ہی سہہ پاتے ہیں۔تب سے اب تک پوری فیملی سمیت حالت غم میں ہی ہوں اور وجود ہے کہ جیسے بیمار سا ہو اور درد ہے کہ کم ہونے کی بجائے سوا ہی ہوتا جا رہا ہےاور ماں کی یاد ہے کہ شدت سے آ رہی ہے اور بہت زیادہ رلا رہی ہے ۔اے ماں تجھے کیا بتاؤں کہ یہ دل جو آپ کو دیکھنے سے کھلتا اور بہلتا تھا،تیرے جانے کے بعد سے اب مرجھا سا گیا ہے اور بہلنے کو کچھ باقی نہیں رہا ہے ۔دل شدت غم سے پھٹ رہا ہے اور اس میں صرف تیری یاد ہی کا آسرا باقی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.