راجن پور میں جب آکر کوہ سلیمان کا پتہ چلتا ہے تو فورا حضرت سلیمان اور تخت بلقیس کا خیال آتا ہے لیکن جب ہڑند کے قلعے پر نظر پڑتی ہے تو تخت سے لے کر تختے تک کا سفر ذہن میں آجاتا ہے۔ تختے کے بعد تو پھر زیر زمین کا سفر ہے اور بالآخر منوں مٹی۔ یوں روز حشر تک کا پینڈا۔ غم اور خوشی ساتھ ساتھ۔کوہ سلیمان سے آج بھی گونجنے والی آواز ہر آنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اسی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انسان ماڑی پر پہنچ جاتا ہے۔ چار ہزار فٹ کی بلندی اور پھر اوپر سے نیچے دیکھنا۔چودہ طبق روشن۔ آنکھیں خوفزدہ ہیں یا چندھیا سی گئی ہیں دونوں صورتوں میں ماڑی کی خوبصورتی کو بحال کرنے میں میرا اور آپ کا خدائے لم یزل نے کردار رکھا ہے۔ کردار ادا کرنے کے لئے سکرپٹ دیکھنے کی ضرورت ہے اور سکرپٹ فی الحال صیغہ راز میں ہے۔ کاش راز افشاء ہو جاتا تو ہم سب محتاط ہوجاتے جنوری فروری کے دن ہیں شدید سردی اور صاحبان عقل ودانش کا مشورہ ہے کہ غروب آفتاب سے پہلے میدانی علاقہ میں جایا جائے۔ واہ واہ زبردست مشورہ اور وہ بھی مفت۔ سرسبز وشاداب کھیت کھلیان۔ سونا اگلیں گے تو ہم اپنے پڑوسی ملک کو قرضہ دیں گے ویسے میونسپلٹی دلی آج بھی میونسپلٹی داجل کی مقروض ہے۔ کاش مذکورہ ادارہ اپنے قرض واپس لینے میں کامیاب ہو جاتا تو داجل سے ہڑندکا سفر آسان ہو جاتا۔ یہ بہر حال مشکل کام ہے ویسے بھی کوہ سلیمان سے گرنے والے بارش کے پانی نے اس کام کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ بےبس انسان کی نقل مکانی اور اس کے نتیجے میں آنکھوں سے آنسووں کا بہنا۔ رود کوہی اور آنکھ میں “بہنا” قدر مشترک ہے۔ مناظر فطرت ہمارے لئے ہیں اور ہم نے ہی ان کو سیدھا پدھرا کرنا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ روہی کے لوگ بڑے حوصلے والے ہیں ہر سال آنے والا سیلاب نقصان تو کرجاتا ہے لیکن یہاں کے مکینوں کے حوصلے پست نہیں کرسکتا۔ ہروقت اور ہر لمحہ حوادثات زمانہ کی زد میں. انہوں نے کیا کیا نہیں دیکھا ہے۔ سکندر اعظم کا آنا اور یہاں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جانا۔ ہڑند کا ایک زمانہ اور پھر قصہ پارینہ اور اب دیرینہ مطالبہ ہڑند قلعہ کو محفوظ کرنا۔ قبائل کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ دست وگریبان، جنگ وجدل، گفت وشنید، شیروشکر، انگریز اور قبائلی نظام، جرگہ اور انصاف اس کے بعد بارڈر ملٹری پولیس اور بلوچ لیوی۔ بلوچ آج بھی اپنے ماضی پر فخر کرتا ہے اور وہ اس سلسلے میں کسی ابہام کا شکار نہیں ہے۔ وہ باہر سے آنے والے ہر ” باہرلے”کا راستہ روکتا ہے۔ اس کی اپنی مٹی کے ساتھ وفاداری اور پھر استواری۔ پکے پیڈے اور سچے لوگ۔ تاریخ کی کتاب کا ہر ورقہ کہتا ہے کہ عرب سے بزرگ دنیا کے مختلف علاقوں میں اس لئے گئے کہ انہوں نے دنیا والوں تک اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیغام پہنچانا تھا پھر اس عظیم کام کو آنے والی سب نسلوں نے سراہنا تھا۔ راجن پور کے علاقہ میں حضرت سعد بن عدی اور حضرت امیر حمزہ کے آج بھی مزارات مرجع خلائق ہیں۔ اول الذکر صحابی بیان کئے جاتے ہیں اور موخرالذکر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بیٹے تھے۔مخدوم راجن شاہ اور پھر سید العاشقین خواجہ غلام فرید رحمہ اللہ علیہ جن کی نوائے شوق سے حریم ذات میں شور برپا ہوا اور جن کے مختصر ترین خط نے وقت کے سلطان پر کپکپی طاری کردی۔ روہی سے ایک آواز گونجی جس کی مٹھاس، شیرینی، اثر اور درد نے پنجاب سے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ جانے والوں کو کوٹ مٹھن رکنے پر مجبور کیا اور اسی آواز نے مجبور اور بے کس لوگوں کو کھل کر بات کرنے کا حوصلہ دیا۔ مذکور صوفی باصفا نے دل ودماغ میں لگے جہالت کے جالوں کو صاف کیا اور اپنی نظر کے فیض سے بھولے اور بھٹکے ہووں کو منزل کا راستہ دکھایا۔ بھوکوں اور پیاسوں کو خوب کھلایا پلایا۔ ظاہر اور باطن کی دنیا کو آباد کرکے متلاشیان حق کو جینے کا ڈھنگ سکھایا۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر راقم الحروف کو بین الاقوامی راجن پور قومی ورثہ کانفرنس منعقد کروانے کا خیال آیا۔ ویسے اس خیال کو پہلے ہی آجانا چاہیئے تھا۔ خیر! دیر آید درست آید
زندہ قومیں اپنے ورثے کی حفاظت کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں تاکہ اپنے آباء واجداد کی نیک نامی کا باعث بھی بنیں اور ان کے کئے گئے کاموں کے تسلسل کو بھی برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر ماضی کی کہانی کا پلاٹ اور پھرکہانی کے کردار جاندار ہوں پھر تو آنے والی نسلوں کی اور بھی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اس بات کا راجن پور کے لوگوں میں شعوری احساس پیدا کرنے کے لئے 6 اور 7 فروری کو ایک بین الاقوامی راجن پور لوگ ورثہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ ملک کے مختلف علاقوں اور بیرون ملک سے بھی دانشوروں اور محققین نے شرکت کی۔ تاریخ کے خوب اوراق پلٹے گئے۔ آرٹ، آرکیٹیکچر، لٹریچر، سیاست، ثقافت، کلچر، شاعری، موسیقی، تاریخ، معاشرت، معیشت، مسائل اور وسائل بلکہ سب کچھ ہی زیر بحث لایا گیا۔ سرائیکی زبان کی تاریخ اور اس زبان کی شیرینی اور مٹھاس جو کہ اس زبان کو دیگر زبانوں سے ممتاز کرتی ہے واہ واہ۔ یہاں کے لوگوں کی تحمل مزاجی، نفاست، سادگی، شائستگی اور مستقل مزاجی۔ کہنے والوں نے ہر بات کہہ دی۔ کلاس سسٹم کی بھی بات کی اور مفلس اور نادار لوگوں کے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر سب کو دعوت فکر دی کچھ اصحاب سخن نے کچے کے ڈاکوؤں کی بات کی تو کچھ نے پکے کے ڈاکوؤں کا بھی تذکرہ کرڈالا۔ مجموعی طور پر اس علاقہ کے پرامن ہونے کی تائید وتصدیق کی گئی۔ سامعین نے بھی ساری باتیں سن کر ثابت کردیا کہ ہر شخص کی بات سننا چاہیئے لیکن بات کرنے والے پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے