پاک فوج ہے تو ہم ہیں

15

فاروق انجم بٹہ
ان دنوں پاکستان کی مسلح افواج ایک مرتبہ پھر نشانے پر ہیں۔طعن و تشنیع کے تیر ان کی طرف چلائے جا رہے ہیں۔کچھ تجزیہ نگار بجٹ کا رونا روتے ہوئے اسے ملک کی معیشت پر بوجھ قرار دیتے ہیں۔کچھ ماہرین 70 فیصد بجٹ کھانے کا طعنہ دے رہے ہیں،بعض لوگ کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو فوج کے وجود پر ہی طرح طرح کی تاویلیں پیش کر رہے ہیں اور نت نئے سوالات اٹھا رہے ہیں،ہمارے ازلی دشمن کا یہ پرانا منصوبہ ہے کہ کسی بھی طرح پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستانی عوام کے مابین خلیج پیدا کی جائے اور اسلام دشمن قوتیں اس خلیج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مملکت خداداد پاکستان کے حصے بخرے کر دیں۔کوئی ذی شعور شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کی مسلح افواج وطن عزیز کی سلامتی اور بقا کی ضمانت ہیں۔اسے خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی،کہ پاکستان جغرافیائی طور پر ایک ایسے محل وقوع پر واقع ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی عالمی طاقتیں پاکستان کی اہمیت تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔یہ جغرافیائی حیثیت ایک طرف تو پاکستان کی اہمیت واضح کرتی ہے تو دوسری طرف پاکستان کی مشکلات میں اضافے کا سبب بھی ہے۔اگر ہم اپنے ہمسایوں پر نظر ڈالیں تو ہماری سرحدوں کی ایک جانب بھارت جیسا ازلی دشمن ہے جو پہلے دن سے ہی پاکستان کا وجود مٹانے کے درپے ہے۔دوسری طرف طویل ترین سرحد کے ساتھ افغانستان واقع ہے جوخلفشار کا شکار رہتا ہے۔ میرا موضوع یہ نہیں کہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج کا کیا کردار ہے،آج اس مضمون میں افواج پاکستان کی کامیابیوں کا تذکرہ بھی مطلوب نہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال کامیابیاں بھی اس مضمون کا موضوع نہیں ہیں۔سیکڑوں شہدائ، ہزاروں غازیوں اور لاکھوں معذور ہونے والے فوجی افسران اور جوانوں کا تذکرہ بھی زیر بحث نہیں ہے۔ کراچی اور خیبر پختونخوا کے شورش زدہ علاقوں میں رونقیں واپس لانے کا تذکرہ دلنواز کی ضرورت نہیں ہے، آپریشن ضرب عضب، آپریشن راہ نجات اور آپریشن راہ حق میں فوج کی جرأت کی کہانیاں بیان کرنا بھی مقصود نہیں۔سوات بحرین مینگورہ اور کالام میں خوشیاں واپس لانا بھی آج کے مضمون کا موضوع نہیں،آئے روز بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا قلع قمع کرنے میں فوج کے کردار کا تذکرہ بھی مطلوب نہیں،بلکہ میں ان سطور میں اپنے قارئین کو یہ بتانا چاہوں گا کہ اسلامی تاریخ میں پاکستان واحد ملک نہیں ہے جس نے مضبوط فوج رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلامی ریاست کی حفاظت کے لیے مضبوط فوج کی تیاری دراصل رحمت عالم ۖ کا اسوہ اور ان کی کامل حکمت عملی کا خوبصورت اظہار ہے
جہاد،اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی رکن ہے۔رحمت عالمۖ کی ساری زندگی جہاد سے عبارت ہے۔مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے جب آپ ۖ مدینہ منورہ پہنچے تو آپۖ نے مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے سب سے پہلے اس وقت کے وسائل کے مطابق مضبوط فوج کھڑی کی۔ایک ایسی فوج کہ جس کے پاس وسائل کی فراوانی تو نہ تھی لیکن وہ لشکر جذبہ جہاد سے مالا مال تھا۔
اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں اور جہاد کے لیے ہمہ وقت مستعد رہنے والوں کے لیے قرآن کریم کی سورہ نساء کی آیت نمبر 95 کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے۔
“جو مسلمان گھروں میں بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اور جو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے والے، دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ نے درجے میں فضیلت بخشی ہے۔ اور بہترین انجام کا وعدہ اللہ نے سب سے کیا ہے اور اجر عظیم کے لحاظ سے اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے۔”
ان آیات سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ نہ صرف جہاد کے لیے تیاری کرنا اللہ کے نزدیک محبوب ہے بلکہ اس کے لیے منظم انداز میں لڑنے کا اہتمام کرنا یہ رسول اللہۖ کی سنت کے عین مطابق ہے۔
اس مقام پر بعض نام نہاد مفکرین یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام جہاد کے زور پر پھیلا یعنی تلوار کے ذریعے لوگوں کو فرمانبردار اور مطیع بنایا گیا لیکن وہ یہ بات فراموش کر بیٹھے ہیں کہ اسلام کی اصل روح تو انسانی زندگی میں تبدیلی لانا ہے۔مضبوط فوج کا تصور تو اس لیے ہے کہ اپنی سلطنت کا دفاع کیا جائے۔اگر آپ دور رسالت میں پیش آنے والی جنگی مہمات کا جائزہ لیں تو ان میں دفاعی حکمت عملی کو پیش نظر رکھا گیا۔کبھی مدینہ سے باہر جاکر بدر کے مقام پر حملہ آور ہونے والے دشمنوں کا مقابلہ کیا گیا۔کبھی مدینہ کے گرد خندق کھود کر اپنی ریاست کو محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی اور کبھی دشمن کے حملوں سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد اس کو راستے میں ہی روک کر قلع قمع کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ان سب چیزوں کا تعلق جنگی حکمت عملی سے ہے نہ کہ تبلیغ سے۔اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ہماری مسلح افواج ان روایات کی امین ہیں جو قرون اولیٰ میں قائم کی گئی تھی۔نبی اکرمۖ نے جب مدینہ منورہ میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے جس کام کی طرف توجہ دی وہ اسلامی لشکر کی تیاری تھی۔یہی وجہ ہے کہ جب ہجرت کے فوراً بعد غزوہ بدر کا معرکہ پیش آیا تو حضور اکرمۖ نے دستیاب وسائل کے مطابق بہترین لشکر تیار کیا۔میدان جنگ میں جاکر اس لشکر کی باقاعدہ تربیت فرمائی۔ان کو جنگ میں صف بندی کے آداب تعلیم کیے۔اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی تائید میں قرآن کریم کی سورة انفال کی متعدد آیات نازل ہوئیں اور اللہ تعالی نے اپنے حبیب مکرمۖکے اقدامات کی تائید فرمائی۔اس سے یہ بات سمجھنا آسان ہے کے لشکر کی تیاری منشائے خداوندی کے بھی عین مطابق ہے۔اور قرآن کریم میں نازل ہونے والی متعدد آیات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.