تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
ہمارے ہاں جون اور بجٹ لازم و ملزوم ہیں اور ان دونوں کی شدت محسوس کی جاتی ہیں۔ جون تو بڑی عجیب شے ہے بڑوں بڑوں کے پسینے نکلوا دیتا ہے اور پھر مزدور۔ اف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔
اور بجٹ ہے کہ بڑوں بڑوں کے پسینے خشک کروا دیتا ہے۔ پوری کائنات میں دو طبقات ہیں۔ ہمارے ہاں تو یقیننا ہیں۔ ایک امیر اور دوسرا غریب طبقہ۔ اول الذکر دونوں کی سختی کو کم کرنے کی استعداد رکھتا ہے جیسا کہ ایئر کنڈیشن لگا کر گرمی کو سردی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے
اسی طرح عائد شدہ ٹیکسز کا رخ نیچے کی جانب موڑ کر ریلیف لینا کوئی اتنا مشکل نہیں ہوتا اور اس کام کے لئے سرکاری ایوانوں میں عزیز واقارب اپنا کردار ادا کر کے قرابت داروں کا حق ادا کرتے ہیں اور رہا دوسرا طبقہ یعنی غریب طبقہ۔ اس کی ضرورت روٹی کپڑا اور مکان ہے وہ انشاء اللہ ضرور پورا کیا جائیگا۔
ویسے بھی یہ دنیا کوئی اچھی دنیا نہیں ہے اور اگلا جہان بھی تو ایک دن آئے گا جہاں جزا اور سزا کی بنیاد پر فیصلے ہونگے۔ ذرا صبر کرنے کی ضرورت ہے۔ جس نے صبر کیا وہ کامیاب ہوا۔
بنیادی طور پر بجٹ کی سائنس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ کام کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے۔ مختصرا آمدن اور اخراجات کے حساب کتاب کو بجٹ کہتے ہیں اور بجٹ بنانے والوں کو مذکورہ دونوں چیزوں میں توازن قائم کرنا ہوتا ہے۔ ذرائع آمدن کے بارے میں جاننا اور پھر اس ضمن میں پالیسی ترتیب دینا بجٹ کا حصہ ہوتا ہے۔
اخراجات کو کم سے کم بریکٹ میں لا کر آمدن کے مطابق بنانا یہی بجٹ ہے اور یہ کام ہم 1947 سے کرتے آرہے ہیں اور شاید ہم میں کوئی کمی ہے کہ آئی ایم ایف کو ہماری مدد کے لئے ہر سال تکلیف کرنا پڑتی ہے نہیں تو ہماری امدادیں مشروط ہوجاتی ہیں اور امداد بند ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے اور ایسی صورتحال میں ہم سب کو اپنی اپنی پڑجاتی ہے۔ گورنمنٹ قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتی اور اپوزیشن امید سے ہو جاتی ہے کہ بجٹ کے منظور نہ ہونے کی صورت میں ایک دفعہ پھر الیکشن۔ مزید قرضوں کی خیر ہے اپوزیشن کی بھی لاٹری نکلنے کا قوی امکان ہو جاتا ہے۔ مکان رہے نہ رہے امکان بڑا ضروری ہے۔ ویسے تو ہم میراث کا ٹھیک ٹھاک ڈھول پیٹتے ہیں لیکن بجٹ کے سلسلے میں نہ جانے ہمیں کیوں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ہمارے آباء ہی تھے جن لوگوں نے ہندوستان میں 1946 کا بجٹ پیش کیا تھا اور تاریخ نے اس بجٹ کو غریب آدمی کے نام سے منسوب کیا تھا۔ امیر ٹیکس دے اور غریب اپنی ضروریات پوری کرے۔ معاشرے میں توازن قائم اور استحصالی طبقے کی چیخیں نکل گئی تھیں اور یہ آج بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن آج کے تناظر میں اتنا آسان بھی نہیں ہے کیونکہ قائد اعظم لیڈر آف دی ہاوس ؛لیاقت علی خان وزیرخزانہ اور چوہدری محمد علی سیکریٹری خزانہ فوت ہو گئے ہیں اور اگلی سب نسلوں کاسامنا ہندوؤں سے نہیں ہے بلکہ اپنوں سے ہے اور اپنوں کی خیر ہے حد وہ گلہ ہی دیں گے نا! اپنوں میں گلے شکوے تو چلتے رہتے ہیں۔ ویسے بھی چیزوں کو چلتے پھرتے رہنا چاہیئے اور بھڑاس نکلتی رہنی چاہیئے۔ ہم سب تازہ دم رہیں گے۔
ہم اس دین کے ماننے والے ہیں جس کا سارا معاشی نظام مبنی بر انصاف معاملات پر چلتا ہے۔ جس میں مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینا پڑتی ہے۔ جس میں حاکم وقت کو اضافی چادر رکھنے پر عوام کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔
جس میں لین دین کے تنازعہ پر سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہ کو عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔ جس میں خلیفہ اول کو ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف تلوار اٹھانا پڑتی ہے۔ جس میں حکمران طبقہ کو نمود ونمائش کرنے پر حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اور جس نظام سے معاشی استحصال کا لفظ قلم زن کرنا پڑتا ہے تب جا کے زکوۃ لینے والے کم پڑ جاتے ہیں اور پھر مسلمانوں کے دن پھرتے ہیں اور وہ ایران، مصر، شام،افریقہ اور سپین تک جا پہنچتے ہیں اور پھر پورے یورپ میں نشاط ثانیہ کا آغاز ہوتا ہے بلکہ ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔
پورے یورپ میں کلاس سسٹم کی بیخ کنی اور محمود وایاز ایک قطار میں اور قطار بھی لمبی نہیں ہونے دی جاتی۔ تاہم ترقی پذیر ممالک کو قطار میں ضرور لگایا جاتا ہے تاکہ ان کی ہوش ٹھکانے رہے اور حق حکمرانی صرف ترقی یافتہ ممالک کو حاصل ہو۔
یہ بھی ہے استحصال کی ایک مکروہ شکل۔ استحصالی طبقہ شکلیں بدل بدل کر سامنے آتا ہے اور دیکھنے والے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ ہم تو ویسے بھی سادہ لوح لوگ ہیں ہمیں تو بہروپیا بھی دھوکہ دے جاتا ہے اور مداری تو پھر ہمارے جذبات سے اچھی طرح کھیلتا ہے اور آخر پر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم لوٹے گئے۔
بہرحال دنیا میں لوٹ کھسوٹ تو چلتی رہتی ہے۔ ہر شخص کو اپنی اداوں پر غور کرنا ہوگا۔ دوسروں کی بات کرنے والے باتیں کرتے رہ جاتے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں ویسے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں اور پیچھے رہنے والوں کو کوئی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا ہے۔
ہوشیار باش کی پالیسی پر سب کو گامزن ہونا ہوگا تب جا کے اپنے اور غیر کی تمیز ہو گی۔ تب جا کے اپنے حقوق کا پتہ چلے گا تب جا کے احساس ذمہ داری کے جذبات پیدا ہو نگے۔
تب جا کر قربانی دینے کا جذبہ پیدا ہوگا تب جا کر ٹیکس دینے کا کلچر فروغ پائے گا تب جا کر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے والوں میں خوف پیدا ہو گا اور تب جا کر معاشی استحکام کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا
بجٹ 25-2024 کا اعلان ہو گیا ہے۔ حسب سابق حق اور مخالفت میں دلائل کی بھرمار، اتحادی جماعتوں کا بھی ملا جلا ردعمل اور اپوزیشن تو پھر اپوزیشن ہے۔ ویسے بھی ہمارا ایک دیرینہ مسئلہ ہے کہ ہم جو کام خود نہیں کرسکتے ہیں وہ دوسروں سے توقع کرتے ہیں۔ چلو یہ سارے معاملات اہل سیاست نے دیکھنے ہیں۔
مجموعی طور پر ہمارے ملک کو ایک پروپیگنڈہ بہت نقصان پہنچا رہا تھا اور وہ تھا ڈیفالٹ کا خطرہ۔ یہ تان اب کافی حد تک ٹوٹ چکی ہے۔ پٹرول سستا اور گندم تو بالکل ہی سستی خام مال سستا ہو تو اس سے بننے والی ساری چیزوں کے نرخوں پر فرق پڑ جاتا ہے اب ہم نے بھی بطور کاروباری طبقہ اپنی اداوں پر غور کرنا ہے۔
خیرمہنگائی کا نمایاں فرق نظر آرہا ہے۔ اب تو ہم سب کو اپنے اپنے لیول پر اپنے معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو دوش دینے کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
بڑھکیں مارنے کا اور دھمکیاں دینے کا ہمارے پاس بالکل وقت نہیں ہے۔ تمام طبقات کو ملکی بقا اور استحکام کے لئے اس لئے قربانی دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ قارئین کرام کبھی فارغ وقت میں بیٹھ کر خدارا سوچیں۔ اللہ آپکو سوچنے کی توفیق دے