پاکستان میں سب سے تاریخی پریس کلب کراچی کا ہے اس کی جمہوریت، ملک کی ترقی اور استحکام کے حوالے سے بھی بہت سی خدمات ہیں جس طرح پنجاب سے اگر کوئی سیاسی تحریک زور نہ پکڑے تو وہ،، ٹھس،، ہو جاتی ہے اسی طرح ماضی میں کراچی پریس کلب کو بھی انتہائی خصوصی اہمیت حاصل تھی کیونکہ لاہور اور اسلام آ باد کا نیشنل پریس کلب تھا ہی نہیں البتہ راولپنڈی پریس کلب نواز رضا کی 10۔ سالہ قیادت میں کسی حد تک متحرک تھا صحافیوں کے لیے لاہور جیسے تاریخی ،سیاسی، ثقافتی اور صحافتی مرکز کا پریس کلب ایک عرصے تک یعنی برسوں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتا رہا جس میں سینیئر صحافی اور مخیر حضرات کی کوششوں سے کچھ نہ کچھ ہوتا رہا ،،پارک وے،، ہوٹل اور مال روڈ کے پچھواڑے سے ہوتا ہوا ہماری ہوش میں پرنس سینما موجودہ پرنس تھیٹر کے فلیٹ میں صفدر ملک کی خصوصی محبت سے پناہ گزیر تھا جبکہ ایک نام نہاد پریس کلب دیال سنگھ مینشن مال روڈ پر بھی جنرل ضیاء الحق کے چہیتوں کے زیر قبضہ تھا پرنس سینما سے حضرت سعید اسی اور حضرت علامہ حسین نقی جمہوریت کی بحالی، جمہوری اقدام اور انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ صحافتی برادری کے لیے مثبت اور یادگار سرگرمیاں انجام دیتے رہے، میں اس وقت نو وارد تھا اس لیے تمام سینیئرز کے نام درج نہیں کر رہا کہ میں ایسی غلطی کر کے ماضی میں برا بن چکا ہوں میں نے موجودہ پریس کلب کی سنگ بنیاد کی تقریب میں زبانی تقریر کرتے ہوئے کچھ کے نام لیے، جو میرے علم میں تھے لیکن ان میں سے ایک نام لازمی میں نہ لے سکا بات آ ئی گئی ہو گئی چند سالوں بعد پریس کلب کی تعمیر اور افتتاح کے بعد جب میں نے الیکشن نہیں لڑا بلکہ بہت سو کی مخالفت کے باوجود اپنے نائب صدر کو الیکشن لڑایا اور وہ ہاپتے کانپتے سینیئر صحافی کو ہرا کر بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے تو میرے مخالفین نے اس معصوم بہادر کو اپنے جال میں پھنسا کر میرے احتساب کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دلوا دی ،اس سینیئرز کی کمیٹی نے مجھ بانی صدر موجودہ پریس کلب کو غیر صحافتی قرار دیتے ہوئے ممبر شپ سے نااہل قرار دے دیا جو سات سال تک قائم رہی پھر نوائے وقت کے بدر منیر چوہدری صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے جنرل باڈی اجلاس میں میری ممبرشپ بحال کرا دی پریس کلب کی داستان بڑی دلچسپ ہے ایبٹ روڈ پر پیر بابا غیب علی شاہ کی زمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پریس کلب کے لیے الاٹ کی تھی اور بقول شخص 16 ۔لاکھ روپے تعمیر کے لیے رقم بھی دی تھی اس وقت کے ذمہ داروں نے میرے زمانہ طالب علمی میں ہی یہ رقم اڑا دی تھی پھر وہی لوگ جنرل ضیاء الحق کے پیارے بنے اور انہوں نے اس دکانداری کو چمکایا ،بڑی زوردار تقریب بھی ہوئی سابق وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق آ ئے اور بہت کچھ دے گئے چند روز مشینری حرکت میں دکھائی دی اور پھر دکان بند ہو گئی برادری تنقید اور طعنے دیتی رہی لہذا تنگ آ کر ذمہ داروں نے مزدور رہنما اور ٹانگہ یونین کے انقلابی صدر آ فتاب ربانی کی خدمت حاصل کر کے یہاں پیر غیب علی شاہ کے مسکن کی خبر دے دی آ فتاب ربانی تو دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن پیر غیب علی شاہ کی رونق اور میلہ ٹھیلا دن دگنی رات چوگنی ترقی کر گیا ایک روز ہم اپنے روزنامہ مشرق کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ پریس کلب کی گفتگو شروع ہو گئی ایک صاحب نے گلہ کیا کہ جناب بانی صدر کی ممبر شپ ختم کر دی گئی تو باقی کوئی کیا حیثیت رکھتا ہے؟ ہمارے سینیئر ساتھی جو احتساب کمیٹی کے چیئرمین تھے بولے ،،حضور یہ بھی تو چار سال فرعون بنے رہے،، انہوں نے تقریب سنگ بنیاد میں سابق صدور کا نام لیا اور میرا نام نہیں لیا اندازہ آ پ خود لگا لیں کہ ہم معمولی غلطی بھی معاف کرنے کو تیار نہیں ،میں نے فورا معافی مانگ لی سگریٹ کا کش لیتے ہوئے فرمانے لگے،،ھن کیہ فائدہ؟،،
آ ج لاہور پریس کلب کا ایک منفرد نظارہ ہے الحمدللہ مجھے کسی نے کبھی یاد نہیں کیا اس لیے بن بلائے میں برسوں سے وہاں نہیں جاتا ،میں سمجھتا ہوں کہ جو پریس کلب میں بنانا چاہتا تھا اس میں ناکام رہا لہذا اپنے گناہوں سے دور ہوں لیکن وہاں کی ممبرشپ حاصل کرنے والے ہزاروں صحافی بھی اس کی تاریخ سے ناواقف ہے اس لیے کہ انہیں کسی نے کچھ بتایا ہی نہیں اور صحافت اب جدت حاصل کر چکی ہے اس کی چمک اور ٹارگٹ بدل چکے ہیں اس لیے کوئی کچھ اس کے بارے میں جاننا ہی نہیں چاہتا،دیال سنگھ مینشن کا موجودہ پی ۔ یو۔ جے آ فس جسے کراچی والے ,,کبوتر خانہ,, کہہ کر مذاق اڑاتے تھے ، وہ بھی ہم نے ضیاء الحق کے پیاروں سے زبردستی تالے توڑ کر لڑ جھگڑ کر گالیاں اور دھمکیاں کھا کر حاصل کیا تھا وہاں بھی گورنر میاں اظہر ہمارے معاون تھے اور اس کی چابیاں بھی آ فتاب ربانی ہی کے پاس تھیں، موجودہ پریس کلب کی تعمیر اور جدوجہد میں میرے دوست احباب اور ساتھیوں کے علاوہ مخالفین کی مدد بھی حاصل تھی نووارد صرف یہ جانتے ہیں کہ ایک تھا ،،غلام حیدر وائیں،، وزیراعلی پنجاب اس نے صحافیوں کی محبت میں لاہوریوں کو ایک یادگار پریس کلب دے کر عظیم خدمت کی اس لیے اس کے قتل کے بعد استقبالیہ پر اس کی تصویر بھی لگائی گئی ہے جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے ہم نے چار سالہ دور جدوجہد1989 سے 1993.4 تک یہ زمین حاصل کی, ڈپٹی کمشنر لاہور جاوید محمود سے الحاج رئیس احمد قریشی اس زمین کی فردیں لائے اور اسے باقاعدہ کلب کو دے دی گئی، رئیس قریشی اس واقعے کے واحد گواہ باقی تھے وہ بھی پچھلے ہفتے دنیا چھوڑ گئے، یقین جانیے کہ میاں اظہر سابق گورنر پنجاب کی کوششیں ہی پریس کلب کی بنیاد