اللہ دین کا چراغ

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ جو تعریف کرنا نہیں جانتا اسے تنقید کا حق نہیں ہوتا ۔تعریف کے بغیر تنقید بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے ۔تنقید کے مثبت نتائج کبھی بھی تعریف کے بغیر نہیں حاصل کئے جاسکتے ۔معاصر معاشروں میں تنقید کے بڑھتے ہوۓ رجحان کی باعث  تعریف اور حوصلہ افزائی کہیں دور ہوتی چلی جارہی ہے ۔ سوشل میڈیا کا اثر ہے یا پھر مسابقت کا بڑھتا دباؤ یا پھر تعریف کی کمی کی ثقافت کا فروغ  یا پھر معاشی اور معاشرتی بےچینی اور مایوسی کی فضا کہ آج کل معاشرے میں تنقیدی رویہ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ حوصلہ افزائی اور تعریف کا عنصر کم ہو تا چلا جارہا ہے ۔تعریف انسان کی بنیادی نفسیاتی ضرورت ہے جو حوصلہ ،خود اعتمادی اور بہتر کاررکردگی کا باعث بنتی ہے ۔جب ہم اچھے کاموں کی تعریف کرتے ہیں تو نہ صرف کسی  ایک فرد  بلکہ پورے معاشرے کا معیار زنددگی بلند ہو جاتا ہے ۔ہمیں سب کو مل جل کر اس توازن کو بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تنقید جہاں ضروری ہو وہاں تعریف بھی اپنی جگہ موجود دکھائی دے ۔دوسروں کی کامیابیوں کو تسلیم کرنے کی بجاۓ بلاوجہ تنقید کرنا کبھی بھی مثبت ثابت نہیں ہو تا ۔ بڑائی یہی ہے کہ ہر اچھے اور مثبت کام کو سراہا جاۓ ۔

گذشتہ روز میرے داماد اور بیٹی رحیم یارخان  سے آۓ ہوۓ تھے ۔ان کی گاڑی پارک کرنے  ساتھ کے خالی پلاٹ پر گئے تو  بڑی مشکل پیش آئی  کیونکہ پورا پلاٹ کوڑا کرکٹ سے بھرا تھا لوگوں نے اسے ففتھ ڈپو بنایا ہوا تھا ۔میرے داماد پوچھنے لگے کہ کیا یہاں بلدیہ یا ویسٹ مینجمنٹ والے نہیں آتے ؟ میں نے اسے بتایا کہ میں پچھلے پندرہ سال سے اس ٹاون میں رہ رہا ہوں میں نے کبھی بلدیہ والوں کو نہیں دیکھا البتہ ویسٹ مینجمنٹ والے عیدالضحیٰ کے موقع پر بہت عمدگی سے ماحول صاف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔میں نے کئی مرتبہ بلدیہ والوں سے رابطہ کیا ہے لیکن یہی جواب ملا کہ فیصل باغ کالونی بلدیہ سے منظور شدہ نہیں ہے اس لیے ہمارا عملہ وہاں باقاعدگی سے نہیں جاسکتا ۔البتہ ٹاون کی مقامی محلہ کمیٹی نے یہاں کی سیکورٹی اور صفائی کا اپنے طور پر انتظام کیا ہوا ہے ۔ہر گھر والا اپنا کوڑا گھر کے سامنے اکھٹا کرکے رکھ دیتا ہے اور صفائی کی ٹیم ہر گھر کے سامنے سے رکھے گئے کوڑے کو  روزآنہ اٹھا لے جاتی ہے ۔ایک جانب بلدیہ فیصل باغ کی صفائی کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتی لیکن دوسری جانب بلدیہ کی جانب سے لاگو تمام ٹیکس وصول کرتی ہے ۔کسی مکان کی تعمیر نقشہ منظوری کے بغیر ممکن نہیں ہوتی  ۔نقشہ منظوری سے قبل کنورشن فیس کی بڑی رقم وصول کی جاتی ہے ۔سیوریج ٹیکس کئی سال سے وصول کیا جارہا ہے لیکن سیوریج کی صفائی کے لیے کوئی عملہ متعین نہیں ہے ۔اگر کاغذوں میں ہے بھی تو کبھی دکھائی نہیں دیا ۔محلہ کمیٹی بھی سیوریج کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی وہ سات سو روپے فی گھر وصول کرکے بامشکل سیکورٹی اور کوڑا اٹھانے کی ذمہ داری پوری کر پاتے ہیں ۔کوڑے والے وہی کوڑا اٹھاتے ہیں جو باہر رکھا ہو ۔گلی کی صفائی ہر گھر خود کراتا ہے ۔یہ کوڑا اٹھانے والےکچھ انعام وغیرہ الگ سے لیکر گلی میں گھر کے سامنے سے کبھی کبھی جھاڑو دے دیتے ہیں ۔خالی پلاٹوں میں پڑا کچرا وہ اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ علاقہ مکینوں سے تمام بلدیاتی ٹیکس  اور واجبات لیکر بھی بلدیہ ان کالونیوں کی باقاعدہ ذمہ داری قبول کیوں نہیں کرتی ؟

میرا داماد میری بات سن کر حیران ہوا کہنے لگا اس کا مطلب ہے کہ آپ کے پاس “اللہ دین کا چراغ “نہیں ہے۔ورنہ تو جونہی آپ اس چراغ کو  رگڑتے ہیں ویسٹ مینجمنٹ والے  جنوں کی مانند پہنچتے ہیں اور منٹوں میں تمام کوڑا اٹھا کر  پلاٹ ہی نہیں بلکہ پوری گلی کی صفائی کردیتے ہیں ۔میں نے حیرانی سے پوچھا وہ کیا ہے ؟ تو اس نے میرے موبائل پر “ستھراپنجاب “کی ایپ ڈاون لوڈ کردی اور اس پر شکایت بھجوانے کا طریقہ بتایا ساتھ ہی پلاٹ کی  لوکیشن اور تصویر بھی بھجوادی ۔صبح سویرے گھر کی گھنٹی بجی تو کیا دیکھتا ہوں کہ بلدیہ کا عملہ اپنے سپروائزر سمیت موجود ہے اور پلاٹ کی صفائی کا کام کررہا ہے ۔انہوں نے واقعی جنوں کی طرح پلاٹ کے ساتھ ساتھ پوری گلی کی صفائی کردی پھر صفائی کرنے والوں کے سپروائزر نے اپنا نمبر دیا اور درخواست کی کہ میں اپنی شکایت کے ازلہ کی میل کردوں ۔میرے لیے یہ سب بہت حیران کن تھا ۔سپروائزر نے مجھے بتایا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے شروع کی گئی “ستھرا پنجاب “ ہیلپ لائن اور آپ کے موبائل میں موجود “ستھرا پنجاب” ایپ ” اللہ دین کا یہ چراغ “ منصوبے واقعی عوام کے لیے مفید اور روشنی کا باعث بن رہے ہیں ۔یہ اقدامات شہریوں کو درپیش مسائل کے حل اور بنیادی سہولیات تک رسائی  میں اہم کردار ادا کر ہے ہیں ۔ “ستھرا پنجاب ” اقدام میں وسیع پیمانے پر سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے جس کا مقصد  پورے پنجاب میں صفائی کی صورتحال بہتر بنانا ہے ۔پہلی بار شہروں اور دیہات میں صفائی  کا ایک جیسا نظام ،صفائی سے متعلقہ مقامی نئی انڈسٹری کا قیام ،آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے صفائی کی ڈیجیٹل نگرانی ، صفائی کے نظام کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ کے لیے کنٹرول روم کا قیام ،ایک لاکھ سے زیادہ خاندانوں کے لیے روزگار کے مواقع ،ویسٹ انکو ژرز ، ڈی سلٹنگ اور ویسٹ سیگر یگیشن ،گھر گھر سے کچرا اٹھانے کا موثر انتظام  اور اس کام کے لیے پنلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ویسٹ مینجمنٹ سروسزکی آوٹ سورسنگ شامل ہے ۔اب ویسٹ مینجمنٹ آپکی ایک کال پر زیادہ سے زیاد ہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں رسپانس دیتی ہے ۔”ستھرا پنجاب ” ایپ اور ہیلپ لائن  کا مقصد صوبے بھر میں صفائی ،کوڑے کے انتظام اور نکاسی آب کی شکایات کا فوری تدارک ہوتا ہے ۔ہر شہری ہیلپ لائن یا “ستھر پنجاب ” ایپ پر  شکایت درج کر سکتا ہے۔یہ ایپ ” اللہ دین کا چراغ “کیوں ثابت ہو رہی ہے  اس کی چند وجوہات یہ ہیں ۔براہ راست عوامی رابطہ ۔ شفافیت ،فوری کاروائی  یہ اقدامات حکومت پنجاب کی عوامی خدمت کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں ۔اگر آپ کو ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانا ہو یا کوئی مسئلہ درپیش ہو تو براہ راست  مذکورہ ذرائع سےایک مرتبہ ضرور رجوع کریں ۔مجھے حیرانگی اس بات پر تھی کہ ہماری محلہ کمیٹی نے اس بارے میں اب تک ان اداروں سے اس ایپ پر رابطہ کیوں نہیں کیا ؟ اور اب تک اپنی فیصل باغ کالونی اور اس جیسی بہت سی  رہائشی کالونیوں کو کو ویسٹ مینجمنٹ میں رجسٹرد کیوں نہیں کرایا گیا ؟دیکھنا یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے اداروں  کی خدمت اور سروسز کا  یہ معیار قائم بھی رہتا ہے ؟ بہر حال اب تک  حکومت پنجاب کی اس بارے میں کارکردگی کی صورتحال بہت حوصلہ افزا قابل تعریف اور قابل ستائش ہے ۔جس کی جتنی بھی تعریف کی جاۓ کم ہے ۔میری خواہش ہے کہ  عوام کے پاس ایسے اللہ دین کے چراغ ضرور ہوں   جو ایپ کی شکل میں موبائل فون کی سکرین پر دکھائی دیتے رہیں اور لوگوں کو ہر شعبہ کی سہولیات ایسے ہی گھر بیٹھے ملتی رہیں ۔“شاباش حکومت پنجاب “

Comments (0)
Add Comment