روح انسانی اور تلوار کی جنگ

تحریر : رانا سہیل عامر

ایرانیوں کی تحریک آزادی کے دو ادوار قابل ذکر ہیں ۔ پہلا دور ایران پر عربوں کے غلبے کا دور تھا اور دوسرا مغربی سامراج کے اثر و نفوذ کا جو انیسویں صدی میں شروع ہوا جس کی جکڑبندیوں کے اثرات آج بھی مشرق پہ نمایاں ہیں ۔ عرب ایران پر ساتویں صدی میں غالب آئے لیکن ایرانیوں نے عربوں کے تسلط کو کبھی ہنسی خوشی قبول نہ کیا ۔ بلکہ عربوں کے غیر ملکی اقتدار سے نجات کے لئے برابر کوششیں کرتے رہے ۔ ابو مسلم خراسانی کی قیادت میں انھوں نے بنی عباس کا ساتھ اس خیال سے دیا کہ ایک طرف تو بنی امیہ سے نجات ملے گی اور دوسری طرف عباسیوں کو جو ایرانیوں کی فوجی طاقت کے سہارے برسر اقتدار آئیں گے ان کی لگام ایرانیوں کے ہاتھوں میں رہے گی ۔ یہ ہی وجہ تھی کہ خلفائے بنی عباس کا دربار دیکھتے ہی دیکھتے ساسانی دربار میں تبدیل ہوگیا ۔ ایرانی لباس درباری لباس قرار پایا ۔ اقبال عجمی فکر و فلسفہ کے سخت خلاف رہے ۔ ان کا خیال تھا کہ عجمی زہنیت ہی اسلام کے زوال کا باعث ہوئی ۔ لیکن اہل ایران عجمی تہذیب پر قانع نہ ہوئے بلکہ اپنی سیاسی آزادی کے لئے برابر جدوجہد کرتے رہے ۔ ایران پہ قاچاری اس وقت برسر اقتدار آئے جب انقلاب فرانس کی گونج سے یورپ کے در و دیوار لرز رہے تھے ۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان رقابت تیز تر ہو رہی تھی اور زار روس ایران پہ للچائی ہوئی نظریں ڈال رہا تھا ۔ قاچاریوں کا دور حکومت ایک سو اکتیس سال رہا ۔ اس دور میں ایک بھی فرمانروا ایسا نہ ہوا کہ جس کو وطن کی مٹی کا درد ہوتا یا جو اپنے زاتی مفاد سے بڑھ کر قومی مفادات کا احساس کرتا ۔ ادھر برطانیہ اور روس ایرانی معیشت کی جڑوں جو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے ۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ ایران میں جدید صنعتی اور مشینی ترقی کو فروغ حاصل ہو ۔ 1848 میں سلطان ناصر الدین تخت نشین ہوا ۔ اس کے پاس طاقت تھی اقتدار تھا لیکن اس کے دل میں بھی قوم اور وطن کے لئے جگہ نہ تھی ۔ اس کے خلاف عوام کی نفرت اپنے عروج پہ پہنچی تو 1896 میں اسے اپنی پچاس سالہ جوبلی سے چند روز پہلے ایک شخص مرزا محمد رضا کرمانی نے گولی ماری کر ہلاک کر دیا جو سید جمال الدین افغانی کا شاگرد تھا ۔ ایران میں پہلوی دور کا آغاز اس وقت ہوا جب دنیا میں ملوکیت کا سورج ڈوب رہا تھا ۔ بادشاہوں کے تاج و تخت ریت کے گھروندوں کی مانند گر رہے تھے ۔ زار روس ، قیصر جرمنی ، آسٹریلیا ، ہنگری اور ترکی کی بادشاہتیں خاک میں مل رہی تھیں ۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں دو ایسے اہم تاریخی واقعات رونما ہوئے کہ جن کے سبب کروڑوں انسانوں کی تقدیریں بدل گئیں ۔ پہلا واقعہ 1914 سے 1918 کی عالمی جنگ کی صورت سامنے آیا اور دوسرا انقلاب روس کی صورت میں ۔ 1914 کی جنگ عالمی سامراجی طاقتوں کی باہمی رقابتوں کا نتیجہ تھی ۔ لیکن اس جنگ کی وجہ سے جو تباہی ہوئی اس کے سیاسی ، اقتصادی ، اخلاقی اور نفسیاتی اثرات سے دنیا کا کوئی گوشہ محفوظ نہ رہ سکا ۔ آگ اور خون کا یہ کھیل جاری تھا کہ روس میں انقلاب آگیا ۔ ایسا انقلاب کہ جس نے سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام کو جڑ سے ہلا دیا اور روس میں محنت کشوں کی پہلی سوشلسٹ حکومت قائم ہوگئی ۔ مگر روسی انقلاب کے اثرات روس کی سرحدوں تک محدود نہ رہے بلکہ بڑے دور رس اور گہرے ثابت ہوئے ۔ بالخصوص مشرق کی محکوم قوموں میں آزادی کی دبی ہوئی چنگاریاں بھڑک اٹھیں ۔ اب مشرق کی ہر قوم اپنے آپ سے سوال کرنے لگی کہ ہم کون ہیں ؟ ہماری شناخت ہماری اصلیت کیا ہے ؟ ہماری جڑیں کہاں ہیں ؟ ہم اپنے قومی تشخص کو کس نام سے پکاریں اور کن خطوط پہ اس کو ترقی دیں؟ یہ تھے وہ سوالات کہ جن کی خلش نے مشرقی اقوام کو اپنے ماضی کی تحقیق و تلاش پر آمادہ کیا ۔ ان قوموں کی تاریخ کے وہ نقوش جو گردش وقت سے دھندلے پڑ چکے تھے ان میں نئی تازگی اور نیا رنگ ابھرا ۔ دور قدیم کے تاریخی اور نیم تاریخی ہیروؤں کو قوم کے مثالی کرداروں کے روپ میں دوبارہ زندگی کیا جانے لگا ۔ مصر میں عرب وطنیت نے زور پکڑا تو عہد فراعنہ کی تاریخ اور تہذیبی آثار کو قومی ورثے کا رتبہ ملا ۔ ترکوں نے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے وارث ہونے کا دعوہ کیا اور وہ اپنی جڑیں تلاش کرتے کرتے توران تک پہنچ گئے ۔ اہل عراق کو ناز تھا کہ دنیا میں تہذیب کا سب سے پہلا گہوارہ دجلہ و فرات کی وادی ہے اور اسی سر زمین پہ بابل کے شہنشاہ حمورابی نے دنیا کا پہلا تحریری آئین نافذ کیا ۔ ہندوستانیوں نے وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا سراغ لگایا اور اپنا رشتہ آریاؤں کی آمد سے قبل کی دراوڑی تہذیب سے جوڑا ۔ ایرانی اس لحاظ سے زیادہ خوش نصیب رہے کہ عربوں اور تاتاریوں کے سات سو سالہ تسلط کے باوجود ان کا تہذیبی تسلسل ٹوٹ نہ سکا ۔ ان کی زبان ، ان کی ثقافت ، ان کی معاشرت زندہ رہی جبکہ دوسری زبانوں کے نام و نشان تک مٹ گئے اور ایران کے ہیروز کو فردوسی نے زندہ و جاوید بنا دیا ۔ قومی تفاخر کا یہ رجحان ترکی اور ایران میں نسلی عصبیت کی شکل میں رونما ہوا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ دونوں ہی ملک عربوں کی توسیع پسندی کے زخم خوردہ تھے ۔ رضا خان سپہ دار کو بھی اپنی ریاست کے جواز اور استحکام کے لئے اگر کوئی نظریہ درکار تھا تو اس ضرورت کو ایرانیوں کی نسلی عصبیت نے پورا کردیا ۔ لہذا نسلی عصبیت نئی ایرانی ریاست کا نظریہ قرار پائی اور رضا خان سپہ دار نے رضا شاہ پہلوی کا حسب نسب اختیار کیا

Comments (0)
Add Comment