ایرانی صدر کا دورہ پاکستان پس منظر اور پیش منظر !!

تحریر وتجزیہ پیر مشتاق رضوی

برادر اسلامی ملک اسلامی جمہوریہ ایران کے سابق صدر سید رئیس ابراہیمی شہید نے گزشتہ سال پاکستان کا دورہ کیا تھا اس دوران مختلف باھمی مفہامات پر دستخط کئے گئے اور اھم معاہدات کیے گئے تھے ایرانی سابق صدر سید ابراہیم رئیسی شہید نے اپنے تین روزہ سرکاری دورہ پاکستان کے دوران انھوں نے صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقاتیں کیں اس کے دوران سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات، دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت کے حجم میں اضافے، نئے اقتصادی زونز قائم کرنے سمیت آٹھ مختلف معاہدوں پر دستخط کیے۔واضح رہے کہ اس وقت اسرائیل ایران کشیدگی عروج پر تھی بد قسمتی سے ایرانی صدر ایک فضائی حادثے میں جانبحق ھو گئے تھے اور ان معاہدات پر مزید پیش رفت نہ ہو سکی کیونکہ عالمی سامراج طاقتوں نے ایرانی صدر کے قتل کے ذریعے اس دورہ کو سبوتاژ کرنے کی سازش کی اس طرح ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا اب جب کہ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزی شکیان کا دو روزہ دورۀ پاکستان تاریخ کے ایسے اہم پس منظر میں ہوا ہے جب گزشتہ ماہ پاکستان نے معرکہ حق میں بھارت کو شکست فاش دی اس جنگ میں عظیم الشان فتح کے بعد دنیا بھر میں پاکستان نے اپنی طاقت اور اہمیت کا لوھا منوایا اسی طرح بعد ازاں ایران اسرائیل جنگ میں ایران نے اسرائیل کو بھی خوب مزہ چکھایا ھنود کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو بھی دنیا بھر میں انتہائی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اس دوران پاکستان نے ہر سطح پر ایران کا بھرپور ساتھ دیا جس پر پوری ایرانی قوم پاکستان کی انتہائی مشکور ممنون ہے اس تناظر میں ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود شکیان کا دورہ پاکستان اظہار تشکر کے حوالے سے بھی ایک پرجوش اور بھرپور خیر سگالی دورہ ہے گو کہ امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کر ڈالا اور ایران پر پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں بھارت ک بھی ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات پر امریکہ کی انتہائی نا ناراضگی کا سامنا ہے کیونکہ بھارت جنوبی ایشیا میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے اور امریکی مفادات کے تحفظ کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے پاک بھارت اور ایران اسرائیل جنگوں کے بعد عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان تزویراتی عالمی حالات کے پیش نظر ایرانی صدر کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے دور رس نتائج نکلیں گےایرانی صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے کچھ مثبت نتائج سامنے آئے ہیں: معاشی تعاون بڑھانے اور تجارت میں اضافے پر اتفاق ہوا۔ایران نے ون بیلٹ ون روڈ پاک چائنہ میگا ڈجٹ میں شمولیت کی بڑی خواہش کا بھی اظہار کیا اور پاک ایران تجارت کو 10 بلین ڈالرز تک لے جانے کا عزم کیا گیا سرحدی سیکیورٹی اور اسمگلنگ روکنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر بات چیت ہوئی۔ توانائی کے شعبے، خاص طور پر گیس اور بجلی کے منصوبوں میں پیش رفت پر گفتگو کی گئی۔علاقائی امن و استحکام اور افغانستان کی صورتحال پر مشاورت ہوئی۔
پاک بھارت جنگ کے بعد مغربی تجارتی توازن میں تبدیلی آرہی ہے بھارت جنوبی ایشیا میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے میں ناکام ہوا اور اور مغرب خصوصا” امریکی توقعات پر پورا نہ ہوتا اس حوالے سے پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت اور بڑھ گئی ہے نائن الیون کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان کی طرف امریکی جھکاؤ زیادہ نظر آرہا ہے قائد اعظم کے قول کے مطابق “پاکستان کو جتنی امریکہ کی ضرورت ہے اس سے زیادہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے ” یہ تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ کبھی وفاداری نہیں کی جبکہ امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے وقت کی ضرورت رہے ہیں پاکستان اپنے دفاع اور بقاء کے لیے چین کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا اور بھع پور کوشش ہو گی کہ کسی امریکی دباؤ کے بغیر یورپ اور مغرب میں متوازن خارجہ پالیسی کو اپنائے جبکہ اسلامی دنیا سے تعلق مزید مضبوط بنانے کا خواہش ہے اور ایرانی صدر کا حالیہ دورہ اس کی مثال ہے واقعی، اس وقت پاکستان کی اہمیت خطے میں ایک بار پھر بڑھ گئی ہے، خصوصاً چین کے ساتھ سٹریٹیجک تعاون کے باعث۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب توازن رکھنا، اور اسلامی دنیا بالخصوص ایران و دیگر پڑوسی ممالک سے مضبوط تعلقات بڑھانا، پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان کو مستقبل میں مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے امریکہ کی یہ شدید خواہش ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں وہ اپنا اثر ورسوح قائم رکھ سکے کیونکہ امریکہ کبھی نہیں چاھے گا کہ پاکستان ایران چائنہ کے اشتراک سے کوئی سٹریٹیجک یا معاشی علاقائی اتحاد قائم ہو کیونکہ امریکہ داخلی طور پر شدید مالی مشکلات کا شکار ہے امریکہ جنوبی ایشیا کے ساتھ ساتھ وسط ایشیا کی منڈیوں میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہا ہے امریکہ خطے میں اپنی طاقت اور اثر رسوخ برقرار رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے وہ پاکستان، ایران اور چین کے کسی قریبی اتحاد کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ معاشی دباؤ، سفارتی چالیں اور سکیورٹی خدشات کے ذریعے امریکہ یہاں اپنے مفادات کی حفاظت کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر توازن رکھنا ہوگا تاکہ معاشی فائدہ بھی حاصل ہو اور کسی بڑی عالمی تنازعے کا حصہ بھی نہ بنے۔امریکہ غالباً ایرانی صدر کے دورہٴ پاکستان کو گہری نظر سے دیکھے گا اور اس پر ملا جلا ردعمل آ سکتا ہے امریکہ کو خدشہ ہے کہ پاکستان اور ایران کا بڑھتا ہوا تعاون اس کے مشرق وسطیٰ اور جوہری پالیسی اہداف سے متصادم ہو سکتا ہے۔ امریکہ اس موقع پر پاکستان پر براہِ راست دباؤ نہیں ڈالے گا، کیونکہ اس وقت پاک-امریکہ تعلقات معاشی و سکیورٹی حوالے سے بہتری کی طرف ہیں، اور امریکہ پاکستان کو اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔ اگر اس دورے کے بعد ایران کے ساتھ تجارت یا توانائی کے کسی بڑے معاہدے کا اعلان

Comments (0)
Add Comment