سالگرہ اور سوشل میڈیا

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

پاکستانی اردو فلم سالگرہ 1969 میں ریلیز کی گئی تھی اور مجھے یہ فلم 1982 میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مذکورہ فلم بلیک اینڈ وائٹ تھی اور اس فلم میں وحید مراد اور شمیم آرا نے ہیرو اور ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے فلموں نے ہمیشہ ہی لوگوں کے رہن سہن کو متاثر کیا ہے۔ کلچر اور فلم لازم و ملزوم ہیں۔ دیہاتوں کا جگا ویسے تو مدت سے ایک جاندار کردار رہا ہے لیکن سلطان راہی نے جگے کے کردار میں ایک نئی جان ڈال دی تھی۔ فلموں کا میرے جیسے بے شمار ہٹے کٹے بلکہ خوبرو نوجوان اثر قبول کرتے تھے اور ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہ ادا کار بن جائیں لیکن کوئی ورلیاں موتی لے تریاں۔ مجھے سالگرہ فلم دیکھ کر اپنی سالگرہ منانے کا شوق پیدا ہوا تھا پر افسوس اس وقت تک گاوں کا ماحول اس بدعت سے پوری طرح ناواقف تھا لہذا میرا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ویسے بھی سیانے کہتے ہیں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے اس کے بعد میری زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب میں سالگرہ جیسی چیزوں کو امیروں کے اللے تللے سمجھتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اکثر دیہاتوں میں بجلی نہیں تھی بلکہ پکی سڑکیں بھی نہیں تھیں ہاں پگ ڈنڈیاں ضرور تھیں۔ شہروں میں کہاں سارے لوگ جاتے تھے۔ دکاندار سودا سلف لینے جاتے تھے یا پھر لائق بچے بڑی کلاسوں میں شہروں میں جا کر داخل ہوجاتے تھے۔ ہاسٹل میں رہتے تھے اور رات کو روشنی دیکھ کر بڑے خوش ہوتے تھے۔ زیادہ تر ان پڑھ تھے ان کی پیدائش کا ریکارڈ بھی نہیں ہوتا تھے۔ سرکاری نوکریوں کا بہت کم رواج تھا اگر کوئی نوکری کا خواہشمند ہوتا تو اس کی عمر کا تعین ڈاکٹر کرتے تھے اور وہ بھی منہ میں ٹارچ کی روشنی مار کر بتا دیتے تھے۔ چھوٹی موٹی فیس لے کر حسب ضرورت عمر کو کم و بیش بھی کر لیتے تھے۔ یہ سارا کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنی عمر کے بارے میں مکمل طور پر بے خبر تھے ہاں اندازہ لگا کر اپنے آپ کو بڑا چھوٹا ظاہر کر دیتے تھے۔ خواتین تو مکمل طور پر خاموشی کی پالیسی پر گامزن ہوتی تھیں۔ اب بات کرتے ہیں سالگرہ کی۔ نہ عمر کے سال کا پتہ اور نہ سالگرہ منانے کی سدبدھ۔ سدا ایک جیسے حالات نہیں رہتے ہیں پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا دیہات شہروں میں بدلنے لگے اور شہر آہستہ آہستہ دیہاتوں کو کھانے لگے یعنی شہری حدود آگ کی طرح پھیلنے لگیں ان حالات سے راقم الحروف اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اس اہم اور حساس موضوع پر لب کشائی کر کے سکھ کا سانس لی
جتھے شہر آباد نیں اوتھے
ساڈے پنڈ گراں سی بچے
سالگرہ منانے میں لوگ بڑے ہی محتاط تھے۔ کیوں تھے اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں سے چند کا تو ذکر مذکورہ سطور میں کردیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی بے شمار چیزیں منانے کا کلچر تھا۔ عیدیں تو منانا ہم پر فرض ہے۔ تیسرا, نوواں اور چالیسواں بھی منانے کا رجحان پایا جاتا تھا۔ رسم ختنہ بھی منائی جاتی تھی۔ رسم مہندی اور شادی کی بے شمار رسومات جن میں دلہے کی جوتی چرانے کی رسم بہت ہی اہم سمجھی جاتی تھی۔ بچہ پیدا ہونے کی صورت میں اس کی “جھنڈ” اتروانے کی رسم بھی منائی جاتی تھی اور رسم ختنہ جس میں نائیوں کی عید ہوتی تھی البتہ بچے بیچارے ایک دفعہ پھر چیخنے چلانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ گھر گھر میٹھی کھیر پکا کر گیارہویں بھی منانے کا بڑا ہی ٹرینڈ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ دیگر رسومات جو منائی جاتی تھیں وہ اب مجھے بھول گئی ہوں کیونکہ عمر زیادہ ہونے کے بھی تو مسئلے مسائل ہوتے ہیں۔ سالگرہ منانا باقی رہ گیا تھا ہم کسی طرح بھی کسی سے پیچھے رہنے والے لوگ نہیں ہیں ہم نے تو ہمیشہ بازی لی ہے۔ لہذا پھر تو سالگرہ منانے کا دور شروع ہوا۔ کیا بچہ کیا جوان اور کیا بوڑھا اس میں تو مرد و زن کی بھی کوئی تمیز نہیں ہے۔ جو بھی کوڑا سچا ریکارڈ بابت پیدائش ہمیں ملتا ہے ہم اس کو مستند مانتے ہوئے اپنی استطاعت کے مطابق یہ کار خیر کرتے ہیں۔ اس سارے عمل میں بے چارے کیک تو تھوک کے حساب سے کاٹ دیئے جاتے ہیں البتہ بیکری مالکان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں اور غالب امکان ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر بے شماربچوں کے پیدا ہونے کی صبح سویرے اٹھ کر دعائیں مانگتے ہیں۔ شاید ان کی اللہ نے سن لی ہے اور ہماری آبادی دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہے اور ہم سے پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ہونے کے باوجود یہ آبادی سنبھالی نہیں جارہی ہے۔
سالگرہ منانے کا شوق تو مجھے اس وقت سے ہے جب میں نے پاکستانی فلم سالگرہ دیکھی تھی لیکن سارے شوق تھوڑا پورے ہوتے ہیں اور کچھ شوق پورے ہو تو جاتے ہیں لیکن دیر سے ایسا ہوتا ہے چلو دیر آید درست آید۔ بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے اور مجھے اپنے متعلقین کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور ہم نے بھی سالگرہ منانے کا مصمم ارادہ کر لیا اور سالگرہ کے دن کا انتظار وہ بھی بڑی بے چینی سے۔ سوشل میڈیا کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے سارے راز کھول کے سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔ اس سے پہلے اپنی عمر بتانے کی حد تک دوتین سال کا تو فرق بڑی آسانی سے ڈالا جا سکتا تھا اب ایک دن پہلے ہی آپ کی صحیح عمر کا ببانگ دہل سوشل میڈیا پر اعلان کردیا جاتا ہے اور آپ اور آپ کے چاہنے والوں کے پاس سالگرہ منانے کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں رہتا ہے۔ طلوع سحر سے ہی میسج کا ایک لا متناہی سلسلہ۔ فیس بک پر ایک ہی ٹرینڈ اور تحریر مختصر مگر جامع۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔ اس کے بعد تو پورا کورس اور میں اور میرا مخصوص انداز۔ کسی کو جیسچر،کسی کے ​

Comments (0)
Add Comment