تحریر: محمد نوید مرزا
پاکستان ملٹری اکاونٹس وفاق کا ایک قدیم ترین ادارہ ھے۔اس باوقار ادارے کو معرض وجود میں آئے ھوئے کم و بیش ڈھائی سو سال گذر چکے ھیں۔تقسیم پاک وہند سے پہلے یہ ملٹری اکاونٹس کے نام سے جانا جاتا تھا۔ایک اندازے اور باوثوق ذرائع کے مطابق اس ادارے سے سو سے زائد شاعر و ادیب وابستہ رھے ھیں۔انہی میں ایک نام جناب طارب جمالی کا بھی ھے،جو میرے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ادارے سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے گاؤں چلے گئے تھے۔جس کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں رھا۔اب جب ان کی وفات کی خبر ملی ھے تو دل بہت دکھی ھے۔میں نے برسوں پہلے ان کے واحد شعری مجموعے ،سرود آگہی کا دیباچہ لکھا تھا۔
جمالی اپنی طرز کے مختلف شاعر تھے۔وہ بنیادی طور پر تصوف کے شاعر تھے اور ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ غالب تھا۔ان کی شاعری کا مرکز و محور خدائے بزرگ و برتر کی ذات پاک ھے۔وہ عشق حقیقی کی گہرائیوں میں اتر کر شاعری کی سنگلاخ زمینوں پر سفر کرتے ھیں۔وہ ذات خداوندی کے ساتھ ساتھ خود کو محبوب خدا نبیء آخر الزماں کے جمال اور جلوؤں میں بھی گم کر دیتے ھیں۔ان دونوں ھستیوں کا عشق ھی انھیں زندگی کے حسن سے آشنا کرتا ھے۔۔۔چند شعر دیکھیں۔۔۔
جد ھر نگاہ اٹھی وہ مجھے نظرآیا
ھر ایک گام پہ مشکل کشا دکھائی دیا
ھر طرف جلوے ترے بکھرے نظر آئیں مجھے
تیرے انوار کی بارش دل و جاں تک دیکھوں
حسن تیرا ھی ھوا ھے وجہء تخلیق جہاں
یہ جہاں میرے لئے اک آئینہ خانہ سہی
طارب جمالی کے ھاں محبت کے عام موضوعات کی کمی ھے،تاھم وہ زندگی کی تلخیوں اور عصری مسائل سے بخوبی واقف ھیں۔ان کی غزل میں زبان وبیان کی خوب صورتی کے ساتھ قاری کو اپنی طرف کھینچنے اور متاثر کرنے کی بھر پور قوت ھے۔تاھم جمالی صاحب کی شاعری عام قاری کے لئے نہیں بلکہ خواص کے لئے ھے۔جمالی صاحب اردو کی شعری روایت سے بھی مکمل طور پر آشنا ھیں،ان کی تربیت علامہ بشیر رزمی جیسے ماھر عروض شاعر کے زیر نگرانی ھوئی ھے اور جمالی صاحب نے بھی اپنی شاعری میں استادانہ رنگ اور مصرعے کی تراش خراش میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔
سرود آگہی کے علاؤہ بھی ان کا خاصا کلام ھے۔میرا جمالی صاحب کے بچوں سے رابطہ نہیں ھو پا رھا،جب بھی یہ ممکن ھوا میں ان سے کلیات جمالی کی اشاعت کے سلسلے میں بات کروں گا۔
ھمارا یہ عظیم شاعر جو تمام عمر صلہ و ستائش کی فکر کئے بغیر پرورش لوح و قلم کرتا رھا،یقینی طور پر اپنے کلام کے حوالے سے زندہ و جاوید رھے گا۔دعائے مغفرت ھے۔اللہ پاک انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائیں،آمین
آخر میں جمالی بھائی کے چند شعر دیکھیں۔۔۔۔
عارضی رشتوں کی چاھت ھے تو اتنا سوچ لے
ساتھ جن کا دائمی ھو وہ تو پیارے اور ھیں
مسلسل موت میں پنہاں تمنا کی حقیقت ھے
فنا کی منزلیں طے کر بقا کا رازداں ھو جا
دانہء گندم کی مستی نے ھمیں رسوا کیا
ورنہ جنت میں ھمارے واسطے کیا کیا نہ تھا
شب تیرہ کے سناٹوں میں اکثر
کوئی زخمی پرندہ چیختا ھے
فنا کے بحر میں کب سے اتر گیا ھوں میں
ترے بغیر لگا یوں کہ مر گیا ھوں میں
نور کمال حسن ھے کثرت کا آئینہ
ھر قلب حق شناس ھے وحدت کا آئینہ
ھمارے دامن افکار کی ھے پہنائی
یہ کائنات حقیقت میں کائنات نہیں