پاکستان میں چھ ججز کے خط نے نظام عدل پر سوالیہ نشان لگایا ہے ۔اس میں ہائیکورٹ کے چھ بااختیار ججز نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے جس سے ملک میں عدالتی نظام کے کمزور پڑ جانے کا تاثر کھل کر سامنے آرہا ہے ،عام آدمی کے لئے انصاف کے حصول تک رسائی بہت مشکل رہی ہے ،وکلاء کی مہنگی فیسیں اور مقدمات کی طوالت سے فوری انصاف کی فراہمی کے عمل کو ناپید کہا جارہا تھا ۔ملک میں عدالتی نظام کے اصلاحاتی پیکج کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے ،کم ازکم عدلیہ کی انتظامیہ سے آزادی سے کچھ بہتری آئی تو ضرور تھی تاہم حال ہی میں اسلام آباد کے چھ ججز نے خط کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے بھی کچھ معاملات پر سوالات اٹھائے ہیں ،اس کی تحقیقات کا اعلان ہوا تو انکوئری کمیشن تشکیل پاگیا ،سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو سربراہ بنایا گیا تاہم غالباً پی ٹی آئی کے اعتراض کے بعد جسٹس جیلانی نے معذرت کرلی اور پھر اسکے ساتھ ہی اسی جماعت کے مطالبے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس لے لیا ہے ،اس تناظر میں وفاقی وزیر سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ ججوں کے معاملہ پر پی ٹی آئی اور اس کے بانی کے بیانات سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کو سیاست کی نذر کرنے کی مذموم کوشش ہے۔وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما بیرسٹر گوہر کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے بانی کا کہا قانون نہیں، آئین پر عمل ہو گا، اپنی حکومت میں ججز کے خلاف ریفرنس بنانے والے مشورے نہ دیں تو بہتر ہو گا۔وزارت قانون کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ججوں کے معاملہ پر پی ٹی آئی اور اس کے بانی کے بیانات سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کو سیاست کی نذر کرنے کی مذموم کوشش ہے۔انہوں نے کہا کہ بیرسٹر گوہر خود وکیل ہیں۔ انہیں علم ہونا چاہئے کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت بنچ کی تشکیل کی گئی ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ فل کورٹ نے ہی اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں تحقیقات کا کہا گیا تھا۔چیف جسٹس اور سینئر ججز کی کمیٹی کی صوابدید ہے کہ وہ کس معاملے پر کون سا بینچ تشکیل دیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی اور اس کے بانی کا کہا قانون نہیں ہے، آئین پر عمل ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اپنے دور حکومت میں ججز کے خلاف ریفرنس بنانے والے مشورے نہ دیں تو بہتر ہو گا۔وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق اہم معاملہ پر سیاست نہ کرنا ہی ملک اور عدلیہ کے لئے اچھا ہے۔واضح رہے کہ اڈیالا جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے خط کے معاملے پر ازخود نوٹس پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیاتھا ۔ان کا کہنا تھا کہ ججوں کے خط کے کیس میں فل کورٹ بنایا جائے۔واضح رہے کہ پھر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 7 رکنی بینچ کی سربراہی کررہے ہیں ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بینچ کا حصہ ہیں ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیرِسربراہی 7 رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے ۔واضح رہے کہ 25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔ان حالات میں جب سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لیا جاچکا ہے اس معاملے پر کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی بھی بیانیہ عدالتی امور میں مداخلت ہوگا ۔ججز کے خط والے معاملے کو سیاست کی نذر کرنے سے گریز کیا جائے ،شفاف تحقیقات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے مسا ئل میں مزید اضافہ ہوگا ۔