ترقی خوشحالی کیلیے زرعی پیداوار پر توجہ ضروری ہے

آج کا اداریہ

ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات میں معملی اضافے کی خبر کے ساتھ ہی چند دن بعد پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کی اطلاعات نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کپاس کی فصل شدید بحران کا شکار ہے اور حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں جننگ فیکٹریوں میں آنے والی کپاس کی مقدار میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 32 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جس سے معیشت اور اہم ٹیکسٹائل شعبے کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کی جانب سے جمعہ کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 15 جولائی تک صرف 2 لاکھ 97 ہزار 751 گانٹھیں جننگ فیکٹریوں تک پہنچیں، جب کہ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران 4 لاکھ 42 ہزار 041 گانٹھیں موصول ہوئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب کی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی، جہاں اب تک 1 لاکھ 45 ہزار 101 گانٹھیں موصول ہوئی ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 27 فیصد زیادہ ہیں۔
ضلع وار تفصیلات کے مطابق وہاڑی میں 33 ہزار 950 گانٹھیں، خانیوال میں 28 ہزار 825، ڈیرہ غازی خان میں 19 ہزار 397، راجن پور میں 9 ہزار 200، جب کہ دیگر اضلاع میں معمولی مقدار ریکارڈ کی گئی، جن میں ملتان میں 3 ہزار 700، فیصل آباد میں 3 ہزار 037 اور لیہ میں 3 ہزار 970 شامل ہیں۔
البتہ رحیم یار خان میں صرف 15 گانٹھیں موصول ہوئیں، جو کہ 99 فیصد سے زائد کمی ہے، اس شدید کمی کی بڑی وجہ علاقے میں گنے کی وسیع پیمانے پر کاشت کو قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ یہاں 6 بڑی شوگر ملز موجود ہیں۔
دوسری جانب سندھ کی صورتحال نہایت تشویشناک ہے، صوبے میں 15 جولائی تک صرف 1 لاکھ 52 ہزار 650 گانٹھیں رپورٹ ہوئیں، جب کہ گزشتہ سال اسی مدت میں یہ تعداد 3 لاکھ 27 ہزار 666 تھی، یعنی 53 فیصد کمی ہوئی۔
ضلع سانگھڑ بدستور سرفہرست رہا، لیکن وہاں بھی صرف 1 لاکھ 30 ہزار 037 گانٹھیں آئیں، جو گزشتہ سال کی نصف سے بھی کم ہیں۔
دیگر اضلاع جیسے میرپور خاص میں 5 ہزار 100، نوابشاہ میں 1 ہزار 100 اور جامشورو میں 1 ہزار 500 میں پیداوار نہایت کم رہی، جب کہ کئی اضلاع میں تو کوئی آمد ہی نہیں ہوئی، جو کہ ایک گہری پیداوار بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔
بلوچستان کی کارکردگی بھی خراب رہی، جہاں اس سال صرف 5 ہزار 100 گانٹھیں رپورٹ ہوئیں، جب کہ گزشتہ سال 11 ہزار 200 تھیں، یعنی 54 فیصد کمی ہوئی۔
کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق نے پیداوار کے اعداد و شمار میں فرق پر روشنی ڈالی، ان کا کہنا تھا کہ جہاں پی سی جی اے کے مطابق 15 جولائی تک پنجاب میں 1 لاکھ 45 ہزار 101 گانٹھیں رپورٹ ہوئیں، وہیں کراپ رپورٹنگ سینٹر پنجاب (سی آر سی پی) کے مطابق پیداوار 3 لاکھ 35 ہزار گانٹھیں ہے، جو کہ 131 فیصد زیادہ ہے۔
ان میں سے 84 ہزار گانٹھیں شمالی پنجاب اور 2 لاکھ 51 ہزار گانٹھیں جنوبی پنجاب سے بتائی گئی ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف کسانوں بلکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
دوسری جانب ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات مالی سال 2025 میں 7.39 فیصد کے معمولی اضافے کے ساتھ 17.89 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ مالی سال میں 16 ارب 66 کروڑ ڈالر تھیں۔
ایکرپورٹ کے مطابق مصنوعات کے لحاظ سے تیار ملبوسات (ریڈی میڈ گارمنٹس) نے سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا، جن کی برآمدات کی مالیت میں 15.85 فیصد اور مقدار میں 5.80 فیصد اضافہ ہوا۔
اس کے بعد نٹ ویئر کی برآمدات کی مالیت میں 13.68 فیصد اور مقدار میں 6.47 فیصد اضافہ ہوا، بیڈ ویئر کی برآمدات کی مالیت میں 11.07 فیصد اور مقدار میں 8.37 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، جب کہ تولیوں کی برآمدات کی مالیت میں 2.61 فیصد اور مقدار میں 1.62 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
اس کے برعکس، کاٹن کلاتھ (سوتی کپڑے) کی برآمدات کی مالیت میں 3.05 فیصد اور مقدار میں 7.03 فیصد کمی ہوئی، جب کہ یارن (دھاگے) کی برآمدات میں نمایاں کمی دیکھی گئی جو 28.76 فیصد تک گراوٹ کا شکار ہوئیں۔
تولیوں کے علاوہ دیگر تیار شدہ اشیا (میڈ اپ آرٹیکلز) کی برآمدات میں 8.45 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ ٹینٹ، کینوس اور ترپال کی برآمدات میں 6.21 فیصد اضافہ ہوا، خام روئی (را کاٹن) کی برآمدات میں شدید کمی واقع ہوئی، جو 98.45 فیصد تک گراوٹ کا شکار ہوئیں۔
درآمدات کے لحاظ سے مصنوعی فائبر اور مصنوعی سلک یارن کی درآمدات میں بالترتیب 5.19 فیصد اور 12.03 فیصد اضافہ ہوا۔
دیگر ٹیکسٹائل اشیا کی درآمدات میں 67.99 فیصد نمایاں اضافہ ہوا، خام روئی کی درآمدات میں سال بہ سال 182.53 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو مقامی پیداوار میں کمی کی وجہ سے بڑھی ہوئی گھریلو طلب کو ظاہر کرتا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ وسائل میں اضافہ اور اخراجات میں کمی ملکی ترقی و خوشحالی کے ضامن ہیں
خسارے کو کم کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ عوامی ترقیاتی منصوبوں کو بڑے بین الصوبائی منصوبوں تک محدود کردیا جائے۔ دفاع سمیت موجودہ اخراجات کی شرح کو مہنگائی کی شرح سے کم کردیا جائے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ذیلی سطح پر 5 سالوں میں ہونے والی ادائیگیوں کو موجودہ 57.5 فیصد سے کم کرکے تقریباً 40 فیصد کردیا جائے۔ ساتھ ہی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مقامی حکوتوں کو بھی اپنی آمدنی بڑھانے کی اجازت دے دینی چاہیے۔
یہاں بیرونِ ملک سے قرضے لے کر اور نجی سرمایہ کاری سے مالیاتی خسارے کی بھرپائی کی جاتی ہے۔ قرضہ لینا کوئی نہیں چاہتا اور نجی سرمایہ کاری کے نتائج کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
اسی لیے ہمیں مالیاتی اور شرح مبادلہ کی ایسی پالیسیوں کا انتخاب کرنا چاہیے جن سے کرنٹ اکاؤنٹ میں توازن قائم کیا جا سکے۔
ترقی کے تصور میں اہم ستون درآمدات کے برعکس برآمدات کے فروغ کے لیے پالیسی سازی ہے۔ ہماری برآمدات تین اہم وجوہات کی بنا پر کم ہیں۔
ایک یہ کہ ہم مناسب نرخوں پر توانائی کی بلاتعطل فراہمی نہیں کرتے۔
دوسری یہ کہ ہمارا ملک غیر ملکی خریداروں کے لیے محفوظ نہیں سمجھا جاتا جبکہ
تیسری

Comments (0)
Add Comment