ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان اظہار تشکرکیلئے 2 روزہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ائیرپورٹ پر ان کاپرتپاک استقبال کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے مہمان صدر اور وفد کے اعزاز میں ظہرانہ ،صدر مملکت آصف علی زرداری عشائیہ دیا
قبل ازیں مہمان صدر مسعودپز شکیان نے پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کے ہمراہ مزاراقبال پر حاضری دی۔
حضوری باغ آمد پر ایرانی صدر مسعود پز شکیان، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور وفد کا پر تپاک استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر لاہورائیر پورٹ سے مزار اقبال تک اہم شاہراہوں کو خیرمقدمی بینرز سے سجایا گیا تھا۔
مزارِ اقبال پہنچنے پر صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت عظمی زاہد بخاری،صوبائی وزیر ملک صہیب احمد بھرت اور مولانا عبدالخبیر آزاد نے ایرانی صدر کا استقبال کیا۔ اس موقع پر پنجاب رینجرز کے چاق و چوبند دستے کی طرف سے سلامی پیش کی گئی ۔ مہمان صدر مسعود پز شکیان پنجاب رینجرز کی معیت میں مزار اقبال میں داخل ہوئے ۔
ایرانی صدر کی وزیراعظم سے ون آن ون ملاقات بھی ہوئی ۔ بعد میں وفود کی سطح پر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پی ایم ہاوس میں دونوں مملک کے مابین مختلف مفاہمت کی یادشتوں پر دستخط کی تقریب منعقد کی گئ ایرانی صدر کی فیلڈ مارشل سید عاصم منیرسے بھی اہم ملاقات ۔ گزشتہ 2 سال میں پاکستان کا دورہ کرنے والے دوسرے ایرانی صدر ہیں۔
صدر مسعود پزشکیان کے دورۂ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان تہذیبی، سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک ہم آہنگی کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے جس کا مقصد مشترکہ ترقی، علاقائی استحکام اور عالمی انصاف کا فروغ ہے۔
ایران کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مضبوط، مستحکم اور باہمی فائدے پر مبنی تعلقات قائم کرنا ہے۔
اسی تناظر میں پاکستان کے ساتھ ایران کا تعلق خاص اہمیت رکھتا ہے۔یہ صرف جغرافیائی بنیاد پر نہیں، بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی تجربات، مذہبی ہم آہنگی، ثقافتی رشتہ داری اور یکساں اسٹریٹجک مفادات پر مبنی ہے۔
ایشیا کے اس اہم سنگم پر واقع دو خودمختار ممالک کی حیثیت سے ایران اور پاکستان ایک دیرپا شراکت سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے خطے کے مستقبل کو بہت کچھ دے بھی سکتے ہیں۔
صدر مسعود پزشکیان کا دورۂ پاکستان اسی بڑھتی ہوئی رفتار کا مظہر ہے۔
یہ اس اعلی سطحی سفارتی سرگرمی کا تسلسل ہے جس میں شہید صدر ابراہیم رئیسی کا اسلام آباد کا تاریخی دورہ اور وزیر اعظم شہباز شریف کا تہران کا جوابی دورہ شامل ہیں۔
یہ تبادلے اور دونوں جانب کے سینئر حکام کے درمیان مسلسل سفارتی مشاورت اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ تعلقات صرف رسمی نوعیت کے نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے اسٹریٹجک فیصلے کے تحت، علاقائی اہمیت کے حامل تعلقات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
ایران اور پاکستان کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد صرف دو ریاستوں کو جدا کرنے والی لائن نہیں، بلکہ وہ پل ہے جو صدیوں سے اقوام و تہذیبوں کو جوڑتا آیا ہے۔
اس سرحد سے صرف تجارت ہی نہیں بلکہ خیالات، زبانیں، شاعری اور مذاہب کا تبادلہ ہوا، جنہوں نے آج تک ہماری معاشرتوں کو زندگی بخشی ہے۔
نوروز کی تقریبات سے لے کر مشترکہ صوفیانہ روایتوں تک، ہماری تہذیبی و روحانی قربت نے ایک ایسی دائمی مانوسیت اور اعتماد کو جنم دیا ہے جو آج ہماری سیاسی ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔
یہ رشتہ مذہبی ہم آہنگی سے مزید مضبوط ہوتا ہے۔
دو فخر سے سر بلند مسلم اقوام کے طور پر ایران اور پاکستان اسلامی اصولوں یعنی عدل، شفقت اور یکجہتی میں راسخ ہیں۔
یہ اقدار صرف داخلی وحدت کا ذریعہ نہیں بلکہ ہماری بین الاقوامی پالیسی کے رہنما اصول بھی ہیں۔
یہی اقدار ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم فلسطینی جدوجہد جیسے مقاصد میں یک زبان ہوں، ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، اور تعاون و باہمی احترام کے ذریعے امن کو فروغ دیں۔
ہمارے اقتصادی اشتراکات وسیع امکانات کے حامل ہیں۔
پاکستان کی زرعی صلاحیت اور ایران کے وافر توانائی وسائل، اور دونوں ممالک کی رابطہ سازی میں دلچسپی، باہمی انضمام کا قدرتی ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔
شعبہ جاتی ہم آہنگی کے علاوہ، دونوں ممالک کھلے، منصفانہ اور باہم مربوط علاقائی معیشت کی تشکیل میں بھی طویل المدت دلچسپی رکھتے ہیں۔
اگر دونوں ممالک اپنی وژن کو ہم آہنگ کریں، تو وہ ایک پائیدار اقتصادی شراکت قائم کرسکتے ہیں جو باہمی مزاحمت، ٹیکنالوجی میں ترقی اور ہمہ گیر ترقی پر مبنی ہو۔
ایسی شراکت نہ صرف مقامی سطح پر کمیونٹی کو بااختیار بناسکتی ہے بلکہ روزگار کے مواقع پیدا کرکے پورے خطے میں ترقی کا نیا ماڈل متعارف کراسکتی ہے جو پائیدار، مشترکہ اور باہمی فائدے پر مبنی ہو۔
ایسے وقت میں جب سرحد پار خطرات ہماری مشترکہ سلامتی کو مسلسل خطرے میں ڈال رہے ہیں، ایران اور پاکستان سرحدی علاقوں میں سرگرم دہشتگرد نیٹ ورکس کے خلاف چوکنا ہیں۔
انسداد دہشتگردی میں ہم آہنگی کوئی اختیار نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
مقامی خطرات سے ہٹ کر، دونوں ممالک کو ایسے وسیع تر تزویراتی خدشات کا سامنا ہے جو خطے میں جارحانہ رویّوں سے جنم لیتے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کی جاری نسل کشی، شام و لبنان پر اس کا قبضہ، اور حالیہ ایرانی سرزمین پر بلاجواز حملے، ان جارح قوتوں کے خلاف اجتماعی ردعمل کی فوری ضرورت کو مزید بڑھاتے ہیں جو عدم استحکام اور تسلط سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
ذمے دار ریاستیں خاموشی کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم ہم آہنگی کو مضبوط کریں، سیکیورٹی کے میدان میں تعاون کو گہرا کریں، اور عالمی فورمز پر ایک واضح اور متحد موقف اختیار کریں۔
اس تناظر میں، ایران حکومت پاکستان کی اصولی اور غیر مبہم پوزیشن کی دل سے قدر کرتا ہے، جس نے جون 2025 میں ایرانی سرزمین پر اسرائیل اور امریکہ کی فوجی جارحیت کی دوٹوک مذمت کی۔
ایسے وقت میں جب مغربی طاقتیں تاریخ کے غلط رخ پر کھڑی ہوئیں، پاکستان نے بین الاقوامی قانون، علاقائی استحکام اور اپنے ہمسایہ کے ساتھ یکجہتی کا علم بلند رکھا۔
اتنی ہی قابل قدر وہ پرخلوص حمایت تھی جو پاکستانی عوام نے دل کی گہرائیوں سے