وزیراعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کا مقصد ملک کو غیر مستحکم کرنا ہے اور وہ سیاستدانوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہاں ہے گزشتہ روز ایک بیان میں پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ سیاستدانوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہاں ہے، ان کے احتجاج کا مقصد ملک کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے معاملے پر ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ایک بار پھر الجھن کا شکار نظر آتی ہے۔
گذشتہ ہفتے عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر ایک طویل پیغام میں یہ اعلان کیا گیا کہ پانچ اگست سے پی ٹی آئی ملک گیر احتجاج کا آغاز کرے گی۔
عمران خان کے پیغام میں لکھا گیا کہ ’پانچ اگست کو میری ناحق قید کو پورے دو برس مکمل ہو جائیں گے۔ اسی روز ہماری ملک گیر احتجاجی تحریک کا نقطہ عروج ہوگا۔‘
اس پیغام میں مزید لکھا گیا کہ ’اب کسی سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ صرف اور صرف سڑکوں پر احتجاج ہو گا تاکہ قوم زبردستی کے مسلط کردہ کٹھ پتلی حکمرانوں سے نجات حاصل کرے۔‘
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر یہ اعلان آٹھ جولائی کو کیا گیا تاہم اس کے صرف چار روز بعد یعنی 12 جولائی کو اچانک ہی پی ٹی آئی رہنما اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے یہ اعلان کر دیا کہ یہ تحریک 90 روز پر مشتمل ہو گی۔
تاہم اسلام آباد میں مختصر اجلاس کے بعد علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے متعدد سینیئر قائدین اچانک لاہور پہنچ گئے۔ لاہور روانگی سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ احتجاجی تحریک سے متعلق اعلان عمران خان خود کریں گے۔
لیکن لاہور پہنچنے پر علی امین گنڈاپور نے پارٹی کارکُنان اور ممبران صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کی رہائی سے متعلق کہا کہ ’90 دن کے اندر یا تو ہم عمران خان کو رہا کروائیں گے یا سیاست چھوڑ دیں گے۔‘
اس اعلان کے بعد عمران خان کی رہائی کے لیے یہ تحریک نہ صرف متنازع بنتی نظر آ رہی ہے بلکہ اس سے پارٹی کے اندر موجود اختلافات کا بھی اشارہ ملتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتیں احتجاج بھی کرتی تھیں، احتجاجی تحریکیں بھی چلاتی تھیں، لیکن ان کے پیچھے نو مئی جیسا کوئی واقعہ نہیں تھا، اور نو مئی کے اثرات سے آج تک تحریک انصاف نکل نہیں پائی۔
’جب تک نو مئی کے حوالے سے عمران خان کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کریں گے، تب تک میں نہیں سمجھتا کہ ان کی پارٹی، اراکین اور کارکن متحرک ہو پائیںگے
اس بارے میں مختلف رائے سامنے آئی ہیں جن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی قائدین نے متعلقہ حکام کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کا یہ اجلاس پر امن ہو گا اور اس میں مخالف سیاسی رہنماؤں کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں ہو گی ۔
اس بارے میں علی اکبر نے کہا کہ اس پریس کانفرنس میں علی امین گنڈا پور نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ پر امن رہیں گے اور کوئی توڑ پھوڑ یا ایسا رویہ نہیں ہو گا اوریہ ایسا پیغام تھا کہ وہ اگر آگے چل کر کہیں کوئی احتجاج یا ریلی نکالتے ہیں تو اس میں ان کے لیے رکاوٹ نہیں ہو گی اور اگر وہ مینار پاکستان یا کراچی میں کہیں احتجاج کرتے ہیں تو انھیں اجازت دی جا سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ لاہور جا کر پریس کانفرنس اور پاور شو سے علی امین یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ وہ کہیں بھی جا کر احتجاج کر سکتے ہیں
سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کے کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی اسیری کو دو سال ہو گئے ہیں۔
’یہ چاہتے ہیں کہ یہ تحریک چلے اور پریشر بڑھے لیکن لاہور میں علی امین گنڈاپور نے جو اعلان کیا ہے وہ تو 90 دن کا ہے، گویا کہ فیصلہ سازوں کو تین مہینے کا اور وقت مل گیا ہے کہ وہ عمران خان کو بند ہی رکھیں۔‘
واضح ہو کہ تحریک چلانے کے لیے دو چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پہلا تو یہ کہ پارٹی ایک متحد طریقے سے فنکشن کرے اور اس میں حکمت عملی پر اتحاد ہو، لیکن اس وقت پارٹی کئی دھڑوں میں تقسیم ہے۔
’خیبر پختونخوا کے دھڑے کی علی امین گنڈاپور قیادت کر رہے ہیں، وہ ہر صورت میں اپنی وزارتِ اعلیٰ کو قربان نہیں کرنا چاہتے، جبکہ مخصوص نشستوں کے بعد ان کی وزارتِ اعلیٰ پر بھی پریشر آ رہا ہے اور وہاں کوشش کی جا رہی ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد لائی جائے۔ دوسری جانب جو نظریاتی طرز کے رہنما ہیں جیسے جنید اکبر، وہ بڑے بلند و بانگ دعوے بھی کر رہےہیں۔
اس تحریک کا آغاز پنجاب سے اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ جب تک پنجاب اس تحریک میں متحرک نہیں ہوتا، اس وقت تک یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اب پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی گراؤنڈ کے اوپر تنظیم کمزور بھی ہے اور اس میں تقسیم بھی بہت ہے۔
’جب تک یہ اپنا گھر ٹھیک نہیں کریں گے، اس وقت تک انہیں کامیابی نہیں ہو سکتی۔‘
اس میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ لوگوں کو متحرک کرنا ممکن ہوگا؟ ’کیا عوام سڑکوں پر اس حبس کے موسم میں نکلنے کے لیے تیار ہیں؟ پھر اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب کی مرکزی حکومت کی طرف سے سختی بھی کی گئی ہے، تو کیا عوام اس کے لیے تیار ہیں؟ کیا وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اس تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرے گا۔ جو شواہد ہیں، ان کے مطابق لگتا ہے کہ عوام ابھی تیار نہیں ہیں۔‘