مون سون سے قبل ہی پنجاب حکومت کے انتظامات

آج کا اداریہ

ساون کا مہینہ تو 13 جولائی سے شروع ہورہا ہے لیکن تین ہفتے قبل ہی پیشگی مون سون کا سلسلہ گزشتہ ماہ کی 25 جون کو شروع ہوا تھا تادم تحریر جاری ہے ۔ حسب معمول ہر سال کی طرح امسال بھی برساتی پانی کی ممکنہ مشکلات سے بچنے کیلیے ہرممکن حفاظتی انتظامات کیے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں لاہور کی یونین کونسلز کی سطح تک اقدامات دیکھنے کو مل رہے ہیں
موجودہ پنجاب حکومت نے جس طرح بڑی عید کے موقع پر گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی صفائی کے عمدہ انتظامات کیے اور عاشورہ محرم کے موقع پر امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے کیلیے عمدہ اقدامات کیے اسی طرح مون سون کی بارشوں کے پانی کی نکاسی کیلیے پیشگی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے تحت کام کرنے والے نیشنل ایمرجنسیز آپریشن سینٹر (این ای او سی) نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں 10 جولائی 2025 تک معتدل سے شدید مون سون بارشیں متوقع ہیں، جو مختلف علاقوں میں دریائی اور اچانک سیلاب کا باعث بن سکتی ہیں۔
جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق خلیج بنگال اور بحیرۂ عرب سے آنے والی مرطوب ہوائیں ایک طاقتور مغربی ہوائی نظام کے ساتھ مل کر 10 جولائی تک ملک کے مختلف حصوں، خصوصاً تمام بڑے دریاؤں کے بالائی علاقوں میں معتدل سے شدید بارشوں کا باعث بنیں گی۔
این ای او سی کی پیش گوئی کے مطابق ان بارشوں کے باعث دریائے کابل، سندھ، جہلم اور چناب سمیت تمام بڑے دریاؤں میں پانی کی سطح میں نمایاں اضافہ متوقع ہے-
نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر (این ای او سی) کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، اس وقت دریائے سندھ پر تربیلا، کالا باغ اور چشمہ کے مقامات پر نچلی سطح کے سیلاب کی صورتحال دیکھی جا رہی ہے، جبکہ تونسہ بھی جلد اسی سطح تک پہنچنے کا امکان ہے۔
اعلامیے میں مزید بتایا گیا ہے کہ دریائے چناب پر مرالہ اور کھنکی کے مقامات پر نچلی سطح کے سیلاب کا خدشہ ہے، جبکہ دریائے کابل نوشہرہ کے مقام پر بھی پانی کی سطح بلند ہو کر نچلے درجے کے سیلاب تک پہنچنے کا امکان ہے۔
دریائے جہلم اور اس کی معاون ندیوں میں پانی کی آمد میں اضافہ متوقع ہے، جس کے نتیجے میں مقامی نوعیت کے اچانک سیلاب کا سامنا ہو سکتا ہے۔ منگلا ڈیم میں پانی کی آمد نچلی سطح کے سیلاب کی حد تک پہنچ سکتی ہے۔
پہنچ سکتی ہے۔
این ای او سی نے دریاؤں، نالوں اور برساتی ندیوں کے قریب رہنے والے افراد کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پانی کی سطح میں ممکنہ اچانک اضافے، خاص طور پر رات کے وقت یا شدید بارش کے دوران، چوکس اور محتاط رہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ این ڈی ایم اے سیلابی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور صوبائی و ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے ساتھ مکمل رابطے میں ہے تاکہ بروقت تیاری اور امدادی اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے۔

صوبائی دارلحکومت لاہور کے چوکوں چوراہوں شاہراہوں اور رہائشی علاقوں میں کھڑے ہونے والے پانی کی نکاسی کیلیے واٹر اینڈ سیوریج اتھارٹی ( واسا) کی زیر نگرانی زیر زمین پانی سٹور کرنے کیلیے اربوں روپے کی لاگت سے واٹر ٹینک کے منصوبے زیر تکمیل ہیں ۔ تاج پور اسکیم کے باری پارک اور آمنہ سمیت شہر کے مختلف زیریں علاقوں کریم پارک ‘ وارث روڈ ‘ ریلوے سٹیشن ‘ ٹکا چوک ‘ سبزی منڈی، فروٹ منڈی اور رسول پارک جیسے علاقوں میں بنائے جا رہے ہیں، جہاں ہر سال بارش کے دوران پانی کھڑا ہونے کی شکایات سامنے آتی ہیں۔ایم ڈی واسا غفران احمد کا کہنا ہے کہ ان واٹر ٹینکس کی بدولت نشیبی علاقے جلد صاف ہو سکیں گے ۔واسا کا دعویٰ ہے کہ ان ٹینکس کی بدولت نہ صرف نکاسی آب بہتر ہوگی بلکہ بارشی پانی کو زرعی اور سروس واٹر کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکے گا۔شہر میں بارش سے پہلے اگر یہ منصوبے مکمل ہو جاتے ہیں تو مون سون کے دوران اربن فلڈنگ کے خطرے کو کافی حد تک کم کیا جا سکے گا۔
تکمیل کے قریب ان ٹینکس میں برساتی پانی کی سٹوریج اور نکاسی کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ پانی کے اس سٹوریج کے ملٹی پل فوائد بتائے جارہے ہیں۔بارش کے فوری بعد جہاں فالتو پانی ان ٹینکوں میں جمع ہوناشروع ہوجائیگا وہاں یہ پانی خشک موسم میں شہر کو سرسبزوشاداب رکھنے کیلیے کام آئیگا۔ان ٹینکوں میں بڑے سائز کی زیر زمین بچھائی گئی پائپ لائن سے پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا اور پانی کی زیادتی کی صورت میں ندی نالوں میں نکالا بھی جا سکے گا
سکے
دراصل
ساون اتنا زرخیز ہوتا ہے کہ اگر سوکھی لکڑی بھی زمین میں گاڑ دی جائے تو وہ سبز ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مہینہ پودے اور درخت لگانے کے لیے سب سے موزوں وقت سمجھا جاتا ہے۔
آئیے! اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور درخت لگانے کی تیاری کریں تاکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر قابو پایا جا سکے اور ماحول کو بہتر بنایا جا سکے۔
درختوں میں نیم ایک خاص درخت ہے جو 55 ڈگری تک گرمی اور 10 ڈگری تک سردی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک 12 فٹ اونچا درخت اتنی ٹھنڈک پیدا کرتا ہے جتنے تین ایئر کنڈیشنر مل کر کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نیم کا درخت رات کے وقت بھی آکسیجن خارج کرتا ہے۔
درخت زندگی ہیں — درخت قیمتی سرمایہ ہیں۔
نیم کے پودے کی قیمت تقریباً 50 سے 100 روپے تک ہوتی ہے، جو ہر کسی کی دسترس میں ہے۔
اس کے علاوہ، بکائن، جامن، شیشم، کچنار، پیپل، پاپولر، پلکن، آم، امرود وغیرہ بھی ایسے درخت ہیں جو ماحول دوست ہیں اور ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں۔
درخت لگائیں — زندگیاں بچائیں! تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک صاف، سرسبز اور صحت مند ماحول دیا جا سکے۔

Comments (0)
Add Comment