پاکستان تحریک انصاف میں تحریک سے قبل ہی پھوٹ

آج کا اداریہ

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے لاہور میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ عمران خان پاکستان کے لیے فیصلہ سازوں کے ساتھ مذاکرات کےلیے تیار ہیں، مولانا فضل الرحمان منافق آدمی ہے، وہ ابھی بھی اندر سے اسٹیبلشمنٹ سے ملا ہوا ہے۔جبکہ جمعیت علمائے اسلام نے ترکی نہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی نااہل اور نالائق حکومت آخری سانسیں لے رہی ہے اور جب بھی کرپشن کی اور بدامنی کی بات کی جاتی ہے تو وزیراعلیٰ کو تکلیف ہوتی ہے
دوسری جانب خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی حکومت کی کارکردگی پر ہونے والے عوامی رائے عامہ کے سروے کے نتائج جاری کردیے گئے ہیں، جس کے مطابق گورننس، معیشت اور سہولیات پر عوام نے شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
گیلپ پاکستان کے مطابق فروری-مارچ 2025 میں سروے کا انعقاد کی اور صوبے بھر سے 3 ہزار کے براہ راست انٹرویوز کیے اور نتائج کی رپورٹ گلوبل پاکستان کے تعاون سے اپریل تا جون 2025 کے دوران تیار کی گئی ہے اور یہ سروے گیلپ کی جاری سیریز کا حصہ ہے، جس میں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ صرف 63 فیصد عوام کو صحت کی سہولت میسر ہے، جنوبی اور دیہی علاقوں میں حالت زیادہ خراب ہیں، 66 فیصد آبادی گیس سے محروم، 49 فیصد کو بجلی کی قلت یا ناقص فراہمی کا سامنا ہے۔
سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ نوجوانوں کے لیے سہولیات ناپید ہیں، 77 فیصد پارک سے محروم اور 81 فیصد نواجونوں کو لائبریری دستیاب نہیں ہے، 70 فیصد نوجوانوں کو کمیونٹی سینٹرز کی سہولت بھی میسر نہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی 13 سالہ حکومت میں سڑکیں اور ٹرانسپورٹ بہتر ہوئی مگر 2024 کے بعد ترقی سست روی کا شکار ہے، انتخابات کے بعد صرف 43 فیصد نے نئی سڑکوں، 37 فیصد نے ٹرانسپورٹ میں بہتری کو تسلیم کیا۔
گیلپ سروے کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز بھی صوبائی حکومت کی کارکردگی سے غیر مطمئن نظر آئے، 49 فیصد کے مطابق علاقے میں کوئی نمایاں ترقی نہیں ہوئی، 52 فیصد سمجھتے ہیں کہ ترقیاتی فنڈز کرپشن کی نذر ہو چکے ہیں۔
اسی طرح 71 فیصد عوام، جن میں 62 فیصد پی ٹی آئی ووٹرز بھی شامل ہیں، میگا پراجیکٹس کی شفاف انکوائری کے حق میں ہیں، 40 فیصد کے مطابق پنجاب کی نسبت خیبرپختونخوا میں کرپشن زیادہ ہے۔
سروے میں شامل 59 فیصد عوام نے بے روزگاری میں اضافے کی نشان دہی کی، 73 فیصد نے الزام لگایا کہ سرکاری نوکریاں میرٹ پر نہیں بلکہ تعلقات پر دی جاتی ہیں
خیبرپختونخوا کے عوام نے سیکیورٹی پر ملا جلا ردعمل کا اظہار کیا، 58 فیصد مطمئن جبکہ 57 فیصد اب بھی دہشت گردی سے خوفزدہ ہیں، پولیس پر عوامی اعتماد جزوی بحال ہوا ہے اور 58 فیصد افراد نے پولیس کی کارکردگی کو سراہا۔
سروے میں بتایا گیا کہ صوبے میں عدالتی نظام پر عوامی اعتماد کمزور ہوا ہے، 70 فیصد فیصلوں میں تاخیر سے پریشان ہیں جبکہ جرگہ نظام پر عوام کا اعتماد مضبوط ہے اور 84 فیصد اس نظام کو مؤثر سمجھتے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے عوام نے صحت کارڈ اسکیم پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 83 فیصد نے اس سہولت کو سراہا، 80 فیصد عوام سوشیل میڈیا پر پابندی کے حق میں ہیں، جبکہ 75 فیصد سوشل میڈیا کو برا جانتے ہیں اور اس پر یقین نہیں رکھتے۔
سروے میں بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا کے 53 فیصد لوگ کسی بھی احتجاج میں شامل نہیں ہونا چاہتے ہیں اور 83 فیصد شہری وفاق سے بہتر تعاون کے حق میں ہیں، صوبے کے 60 فیصد عوام کا خیال ہے کہ صوبائی حکومت احتجاج میں وقت ضائع کر رہی ہے۔
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین مقبولیت بھی کم ہوئی ہے اور ان کے صوبے 50 فیصد لوگ مریم نواز کو ان سے بہتر سمجھتے ہیں اور ان میں سے 37 فیصد لوگ خود پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں۔
سروے میں بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے 85 فیصدعوام  افغان باشندوں کے پاکستان سے انخلا کے حق میں ہیں اور 79 فیصد سمجھتے ہیں کہ ان کے انخلا سے سیکیورٹی بہتر ہو گی-
وزیر اعلی کے پی کے علی امین گنڈاپور کی اپنے لاولشکر کے ساتھ لاہور آمد اور۔پھر اپنے مخالفین کو للکار کا جے یو آئی نے باضابطہ طور آفیشل تو کوئی نوٹس نہیں لیا تاہم انکے ترجمان اسلم غوری نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) علی امین گنڈا پورا کے منہ کو لگام  دے، جب بھی کر پشن اور بدامنی کی بات کی جاتی ہے تو تکلیف گنڈا پور کو کیوں ہوتی ہے۔
اسلم غوری نے کہا کہ علی امین گنڈا پور بتائے اٹک پر رکاوٹیں ڈالنے والے لاہور میں کیوں استقبال کر رہے ہیں، پی ٹی آئی اپنے میر جعفر اور میر صادق کو کنٹرول کرے۔
جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی لاہور آمد کا سوال ہےتو کہا جا رہا ہےکہ اس دورے کا مقصد اسمبلی میں معطل پی ٹی اراکین اسمبلی سے یکجہتی اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلیے مبینہ طور پر آئندہ ماہ شروع کی جانے والی تحریک کی تیاری کے سلسلے میں مقامی قیادت سے تبادلہ خیال کرنا مقصود تھا تاہم معلوم ہوا ہے لاہور کی قیادت نے اجلاس میں شرکت نہ کرکے اپنی عدم دلچسپی کا اظہار کردیا ہے
کہا جا رہا ہے پاکستان تحریک انصاف لاہور کے سرکردہ رہنماوں نے مرکزی قیادت کی لاہور آمد کی اطلاعات سے ہی لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب کی قیادت میں کے پی کی طرح اختلافات موجود ہیں جسکے لامحالہ تحریک پر بھی اثرات مرتب ہونگے-

Comments (0)
Add Comment