مہنگائی کا جن بوتل میں بند کرنے کیلیے کرنسی اسمگلنگ کی روک تھام ناگزیر ہے

أج کا اداریہ

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای سی اے پی) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ٹو اسٹار جنرل نے کرنسی اسمگلرز کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے تاکہ ڈالر کے بڑھتے ہوئے ریٹ کو کنٹرول کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز ای سی اے پی کے اراکین کے ساتھ ملاقات میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے میجر جنرل فیصل نصیر نے ڈالر کے ایکسچینج ریٹ میں حالیہ تیز اضافے کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
ملاقات کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ چیئرمین ای سی اے پی ملک بوستان نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کرنسی اسمگلنگ مافیا کی دوبارہ سرگرمیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے، جو ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کو ایران اور افغانستان اسمگل کر رہے ہیں۔
ملک بوستان کے مطابق میجر جنرل فیصل نصیر نے اس بات کا مثبت جواب دیا اور فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کرنسی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن اور ان کی گرفتاری کا حکم دیا۔
ملاقات کے بعد ملک بوستان نے دعویٰ کیا کہ اسمگلنگ مافیا زیرِ زمین چلی گئی، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ٹیموں نے انٹیلیجنس کی بنیاد پر بڑے چھاپے مارے، جس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 288 روپے 60 پیسے سے کم ہو کر 288 روپے پر آ گیا۔
ادھر، انٹر بینک مارکیٹ میں ریٹ 285 روپے سے کم ہو کر 284 روپے 80 پیسے ہو گیا۔
ملک بوستان نے پیشگوئی کی کہ اگر ایف آئی اے نے کرنسی اسمگلروں اور ہنڈی-حوالہ آپریٹرز کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا، تو ڈالر کا ریٹ مزید کم ہو کر 270 روپے اور بالآخر ڈھائی سو روپے تک آ سکتا ہے۔
قبل ازیں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو حوالہ ہنڈی مافیا اور نان کسٹم مصنوعات کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کا حکم دے چکے ہیں –
رقوم کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ ‘دنیا کے ایک حصے سے دوسرے تک پہنچانا اور وہ بھی اسے اپنی جگہ سے منتقل کیے بغیر، اس کے لیے نہ تو بینکوں کی اور نہ ہی کرنسی ایکسچینج کی ضرورت ہے، نہ کوئی فارم بھرنا ہے اور نہ ہی فیس ادا کرنی ہے۔
اس میں ایک تو رقم بھیجنے والا اور دوسرا جس کے پاس رقم پہنچنی ہے اور درمیان میں کم از کم دو اور لوگ ہوتے ہیں جنھیں آپ ثالث یا مڈل مین کہہ سکتے ہیں۔
یہ حوالہ کا کاروبار ہے جو روایتی بینکاری نظام کی آمد سے بہت پہلے سے موجود تھا۔ رقوم کی منتقلی میں آسانی اور اس میں شامل لوگوں کو دستیاب بہت سے فوائد کی وجہ سے یہ صدیوں سے جاری ہے۔

اس کے ذریعے لاکھوں ڈالر دنیا بھر میں ادھر سے ادھر منتقل کیے جا سکتے ہیں، اس علم کے بغیر کہ رقم کتنی ہے اور اسے کون کنٹرول کر رہا ہے۔

یہ معلوم کرنا خاصا دشوار کام ہےکہ رقم حوالہ کے ذریعے کہاں سے نکل کر کہاں پہنچ رہی ہے اور اس کا استعمال ممکنہ طور پر منی لانڈرنگ، منشیات کی سمگلنگ اور انتہا پسند تنظیموں کی مالی معاونت کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔

اگر آپ بینکنگ سسٹم استعمال کرتے ہیں تو آپ کے پاس ایک مخصوص رقم ہونی چاہیے۔ اکاؤنٹ کھولنے کے لیے آپ کو کچھ دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے جیسے آپ کی شناخت اور وہاں آپ کی قانونی حیثیت وغیرہ۔
دوسری رقم کی منتقلی کی خدمات بین الاقوامی لین دین کے لیے آپ سے 20 فیصد تک کمیشن وصول کر سکتی ہیں۔ کوئی بھی طریقہ ہو صارف کو کئی ضابطوں سے گزرنا ہوتا ہے تاکہ منی لانڈرنگ جیسی سرگرمیوں کو روکا جا سکے۔
روایتی حوالہ نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پیسے کا لین دین کون کر رہا ہے یہ بات حکومت یا بین الاقوامی اداروں کی گرفت سے باہر رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لین دین کا بہت کم یا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا ہے جو کہ ان پیسوں کی ہیرا پھیری کا پتہ لگانے میں رکاوٹ ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ نیو یارک میں 9/11 کے حملوں میں دہشت گردوں کو بھی ان غیر روایتی طریقوں سے مالی اعانت فراہم کی گئی تھی۔ نئے اور سخت قوانین کے نفاذ کے ساتھ اب نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں چند ہزار ڈالر کے بین الاقوامی لین دین اور بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں۔
مارٹن کا کہنا ہے کہ ’نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ حوالہ کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ممکنہ ذرائع کے طور پر دیکھتا ہے۔‘
عالمی بینک کے مطابق ترقی پذیر ممالک کے ایسے تارکین وطن مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو حوالے کے ذریعے اپنے خاندانوں کی مدد کے لیے رقم بھیجتے ہیں۔
کووڈ 19 وبا کے اثرات کے باوجود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بھیجی جانے والی رقم 2020 میں 400 ارب روپے کے لگ بھگ تھیں۔ یہ رقم سنہ 2019 کے مقابلے میں صرف 1.6 فیصد کم ہے۔ سنہ 2019 میں یہ تعداد 406.31 کھرب روپے تھی۔
بہرحال عالمی بینک نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ’ترسیلات زر کا اصل سائز، جو روایتی اور غیر روایتی دونوں طریقوں سے پہنچایا جاتا ہے، سرکاری اعداد و شمار سے بہت زیادہ ہے۔‘
معیشت میں ممکنہ عالمی بحالی کے ساتھ یہ توقع کی جارہی ہے کہ سنہ 2021 اور 2022 میں روایتی اور غیر روایتی طریقوں کے ذریعے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو حوالہ کے ذریعے بھیجی جانے والی رقم کی مقدار اور بھی بڑھ جائے گی۔
جبکہ کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی رقوم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے غیر قانونی خفیہ ذرائع کی رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں۔وطن عزیز میں ڈالر کی اڑان کو قابو کرنے کیلیے کرنسی کی اسمگلنگ کی روک تھام کیلیے موثر اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ ڈالر کی قدر میں کمی اور مقامی کرنسی کے استحکام میں مدد مل سکے۔ غیر ملکی کرنسی کی غیر قانونی منتقلی پر قابو پانے کی صورت میں ہی مہنگائی کا جن بوتل میں بند کیا جاسکتاہے۔

Comments (0)
Add Comment