پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انڈین صحافی کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروپ کے خلاف انڈیا سے تعاون کے لیے تیار ہے اور انڈیا کو بھی چاہیے بی ایل اے اور مجید گروپ کے خلاف پاکستان سے تعاون کرے۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی بھارت. سے دہشت گردی سمیت تمام متنازع امور پر مذاکرات کی بارہا پیش کر چکے ہیں لیکن
تالی دونوں ہاتھوں سے بجاٹی جاتی ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ انڈیا پاکستان کیخلاف پراکسیز کو سپورٹ بھی کرے انکے خلاف کارروائی تو درکنار الٹا تعاون کرے اور دوسری جانب بے بنیاد الزامات لگا کر پاکستان کوبدنام کرنے کی ناکام کوشش بھی کرے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کو جامع مذاکرات کے ذریعے دہشتگردی کے خطرے پر بھی کھل کر بات کرنی چاہیے اور دونوں ملکوں کے لیے اس مشترکہ چینلج سے نکلنے کا راستہ تعاون ہی ہے۔ اس انٹرویو میں کرن تھاپر بلاول بھٹو سے بار بار لشکر طیبہ اور لشکر جھنگوی سے متعلق سوال کرتے رہے۔ اس انٹرویو میں تکرار بھی ہوتی رہی مگر بلاول کرن تھاپر کو ’یار‘ اور’ بھائی‘ کہہ کر مخاطب کرتے رہے اور یہ کہا کہ ان کا پورا جواب سن لیں یا پھر وہ خود ہی بتا دیں کہ انھیں کیا جواب دینا چاہیے۔ بلاول نے کرن تھاپر کو یہ بھی کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ پر کتنا دباؤ ہے اور اپنے شو میں ایک پاکستانی کو مہمان کے طور پر مدعو کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔
بلاول بھٹو کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ دونوں ممالک کے عوام اور بالخصوص نوجوانوں آگے بڑھیں دونوں ممالک کو آگے بڑھائیں اور دونوں ایک دوسرے کے دشمن نہیں اور نہ یہ سارے لوگ دہشتگرد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کہا کہ وہ پہلگام حملے کے لواحقین کا دکھ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہ خود دہشتگردی سے متاثرہ ہیں۔
اس کے بعد بلاول بھٹو نے لشکر طیبہ اور جیش محمد کے تاریخی پس منظر پر بات کی اور بتایا کہ کیسے ان گروہوں کے تانے بانے افغان جہاد سے جڑتے ہیں۔ بلاول نے کہا کہ وہ خود دہشتگردی سے متاثرہ ہیں اور ان کی ماں بینظیر بھٹو نے بھی اس جنگ میں اپنی جان دی۔
ہم کئی دہائیوں سے دہشتگردی کا مقابلہ کرتے آ رہے ہیں۔ ہم اس برائی کے ڈسے ہوئے ہیں اور اس جنگ میں ہم نے 92000 جانوں کی قربانی دی ہے۔‘ گذشتہ برس 200 دہشتگردی کے حملوں میں ہم نے 1200 سے زیادہ افراد اس جنگ میں کھوئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق رواں برس جتنے حملے ہوئے ہیں اور لوگ مارے گئے ہیں اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا یہ پاکستان کا خونی ترین سال ہوگا۔
اس موقع پر بھی جب بلاول کا انٹرویو چل رہا تھا پاک فورسز کے پی کے علاقہ بنوں میں شدت پسندوں کیخلا ف برسر پیکار تھیں جہاں دو کواڈ کاپٹر حملے کے نتیجے میں ایک خاتون ہلاک اور بچوں سمیت تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ایک حملہ رات جبکہ دوسرا پولیس سٹیشن پر صبح کے وقت پر کیا گیا ہےبنوں میں گذشتہ کئی مہینوں کے دوران متعدد شدت پسند حملے ہو چکے ہیں۔ مارچ میں بنوں کینٹ پر شدت پسندوں کے حملے کے جواب میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 16 شدت پسند ہلاک جبکہ پانچ فوجی بھی مارے گئے تھے۔
۔جبکہ اسی اثنا میں بلوچستان کے ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت میں دستی بم کے حملے میں خواتین اور بچوں سمیت پانچ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کرن تھاپر کو اس انٹرویو میں متعدد بار بتایا کہ ہم ماضی میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ انھوں نے انڈیا کو آگے بڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ماضی ہے، پاکستان ایک عمل سے گزرا ہے اور انڈیا اس عمل کو نظر انداز کر رہا ہے۔
امریکہ سمیت دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان افغان جنگ کے بعد بطور معاشرہ اور ریاست تبدیل ہوا ہے اور افغانستان کے بعد ایسے گروہوں کا نشانہ بھی بنا ہے جو القاعدہ اور دوسرے گروہوں میں تقسیم ہوئے۔ پاکستان کسی اور ملک اور اپنے ملک میں دہشتگردی کے حملوں کی اجازت نہیں دیتا اور دہشتگردی کے اس ناسور سے نبرد آزما ہے۔
جبکہ دوسری جانب بھارتی حکمران جماعت کی سیاسی عمارت ہی دہشت گردی کی پشت پناہی پر کھڑی ہے۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ‘ نوانکوٹ ‘ پہلگام سمیت انڈیا کے اندر ہونے والے درجنوں واقعات کے تانے بانے دلی سے جاملتے ہیں۔ بھارت میں اقلیتیں محفوظ ہیں نہ چھوٹی ذات کی قومیتیں !
یہ واقعات اورانڈیا کے اندریں حالات ڈیجیٹل کےاس دور میں عیاں ہیں ۔امریکہ ویورپ سمیت اقوام عالم بھارتی چالوں اورلغویات میں آنے والے نہیں۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ پاک بھارت جھڑپوں کے بعد انڈیا کو سفارتی محاذ پر پے درپے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے-