بلوچستان : دوافراد کاسفاکانہ قتل

آج کا اداریہ

وزیر دفاع خواجہ آصف نے بلوچستان میں پسند کے شادی کرنے والے جوڑے کے قتل والوں بلوچوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس ’ایکس‘ پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے ریاست کے خلاف بندوق ا ٹھائی ہوئی ہے، وہ پہلے اس نظام کے خلاف آواز اٹھائیں جو آپ کے آس پاس رائج ہے، سارا پاکستان آپ کے ساتھ کھڑا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس ظلم کے نظام کے ذمہ دار آپ کے بھائی بند ہیں، دوسرے صوبوں سے آئے مسافر اور روزی روٹی کمانے والے مزدور نہیں ہیں جن نہتوں کو آپ گولیاں مارتے ہیں، آپ کی جدوجہد کی بنیاد منافقت ہے، آپ کی شناخت وطن دشمنی ہے۔
ادھر
وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی نے سوشل میڈیا پر خاتون اور مرد کے قتل کی وائرل ویڈیو کے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ عید سے چند دن پہلے کی ہے اور اس سلسلے میں اب تک 11 ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں بظاہر چند مسلح افراد ایک مرد اور خاتون کو گولیاں مار کر قتل کر رہے ہیں۔جنکے بارے شبہ کیا جارہا ہے کسی روایت کو توڑنے یا غیرت کے نام ہر انہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔
اگرچہ اس ویڈیو کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے اور نہ ہی اس میں موجود افراد کی شناخت کی تصدیق ہو سکی ہے تاہم وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مطابق انھوں نے اس وائرل ہونے والی ویڈیو کا نوٹس لیا تھا جس کے بعد ’مقتولین کی شناخت ہو چکی ہے اور اب قانون اپنا راستہ لے گا۔‘
وزیرِ اعلیٰ کے مطابق ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد ’ریاست کی مدعیت میں دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور اب تک ایک مشتبہ قاتل گرفتار ہو چکا ہے۔‘
بعد ازاں انھوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک اور پیغام میں دعویٰ کیا کہ ’اب تک 11 ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں، آپریشن جاری ہے۔ تمام ملوث افراد کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائے گا۔ ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ایسی سفاکانہ حرکات ناقابل برداشت ہیں، مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘
کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر میجر ریٹائرڈ مہراللہ بادینی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ویڈیو کے بارے میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو گذشتہ روز منظرِعام پر آئی تھی جس کا وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے کر اس بارے میں تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’ابھی ابتدائی طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ ویڈیو پرانی ہے۔ اس علاقے کا تعین کیا جا رہا ہے اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ آیا یہ کوئٹہ کا علاقہ مارواڑ ہے یا ضلع مستونگ میں دشت کا علاقہ ہے۔‘
سوشل میڈیا پر اس کیپشن کے ساتھ وذیو وائرل ہے کہ
” ہاتھ نہ لگانا گولی ماردو”
بظاہر یہ غیرت کے نام پر دو انسانی جانوں کا زیاں ہے جسکی کوئی معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔ جانوروں میں بھی ایسا سفاکانہ رویہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔
غیرت کے نام پر قتل کو نہ تو آج کے کسی سماجی نظریہ کی رو سے جائز قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسلامی احکامات کی روشنی۔ بے شک قرآن میں زنا کو قابل حد جرم قرار دیا گیا ہے لیکن اس الزام کو ثابت کرنے اور پھر سزا پر عمل درآمد کا طریقہ بھی بہت ہی کڑا ہے۔ اور پھر جرم کا عدالت میں ثابت کرنا اور عدالت کی طرف سے سزا کا حکم صادر ہونا ہی کسی کو مجرم بناتا ہے۔ محض شک یا الزام کی بنیاد پر کسی بھی قانون کے تحت کسی شخص کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مگر اس سلسلے میں چاہے جتنے سخت قوانین بھی بنا لیے جائیں عزت اور غیرت کے نام پر قتل ناحق کو روکنے کے لئے فرد اور سماج کی سطح پر عزت کے تصور اور مفہوم کو صحیح تناظر میں پیش کرنے کی ضرورت بہرحال موجود ہے۔
اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی کی بہن، بیٹی یا بیوی پر بے وفائی کا جھوٹا الزام بھی لگ جائے تو وہ واقعتاً اپنے محلے، گاؤں اور جاننے والوں میں سر اٹھا کر نہیں چلتا۔ اور اس کی وجہ اجتماعی خاندانی نظام یا برادری سسٹم جس کی کئی افادیتیں اپنی جگہ مگر کچھ قباحتیں بھی ہیں۔ ایک قباحت یہ ہے کہ جس طرح ایک شخص کی انفرادی کامیابی پر پوری برادری یا قوم فخر کرتی ہے بالکل اسی طرح خاندان یا برادری کے کسی فرد کی انفرادی لغزش کو تمام لوگ اپنے لئے باعث شرم سمجھتے ہیں۔
کیونکہ اب وہ خود کو ’شرافت‘ کے مروجہ پیمانے پر ہلکا محسوس کرنے لگتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ان معاملات میں ’عزت‘ کو عورت سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ نیتجہ یہ ہے کہ ایک عاقل بالغ لڑکی جب اپنی مرضی سے، جس کی اجازت مذہب بھی دیتا ہے‘ شادی کرتی ہے تو اس کے گھروالے ہی اس کے جانی دشمن بن جاتے ہیں۔
سمجھنے اور سمجھانے کی بات یہ ہے کہ تمام انسان، مرد عورت، معاشرے کے یکساں شہری ہیں اور ان کو ایک جیسے حقوق حاصل ہیں۔ ایک عاقل، بالغ، تعلیم یافتہ لڑکی سے یہ حق کون چھین سکتا ہے کہ وہ اپنے شریک حیات کا انتخاب خود کرے۔
یہ کہنا کہ شادی دو افراد کا نہیں بلکہ دو خاندانوں کا ملن ہوتا ہے معاشرتی ہم آہنگی کے لئے اچھی بات ہے مگر اس ملن کی بنیاد جن ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے وہ میاں بیوی ہی ہوتے ہیں۔ اور اگر ان دونوں میں موافقت پیدا نہ ہو تو پھر ہم آہنگی کی جگہ فساد پیدا ہو تا ہے۔ اگر میاں بیوی میں سے ایک بھی دوسرے سے خوش نہ ہو تو سب کی زندگی جہنم بن جاتی ہے جس کی آگ میں نہ صرف دونوں خاندان جلنے لگتے ہیں بلکہ اگر زور زبردستی سے اس رشتہ کو برقرار رکھا جائے تو اس کا اثر بچوں پر بھی

Comments (0)
Add Comment