یہ سال 1993ء کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب محمد خان جونیجو کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے سخت بیمار تھے اور جونیجو کے لیے ڈاکٹروں کا کہنا یہ تھا کہ وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہیں گے۔ یہ بات یاد رہے کہ اُس وقت مُلک کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تھے اور انٹیلی جنس بیورو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ ایک فوجی ریٹائرڈ بریگیڈیئر امتیاز احمد کے حوالے تھا۔ یہاں پر یہ بات غور طلب ہے کہ بریگیڈیئر امتیاز احمد میاں محمد نواز شریف کی کچن کابینہ کے ایک اہم رُکن تھے اور بریگیڈیئر امتیاز احمد بطور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو پاکستان کے میاں محمد شریف کو پاکستان مسلم لیگ کا صدر بنوانے کے لیے بہت سر گرم رہے۔ ہمارے لئے یہ بھی نہایت حیران کُن بات ہے کہ بریگیڈیئر امتیاز احمد نے پاکستان انٹیلی جنس بیورو جیسے انتہائی اہم ادارے کو مُلک کی قومی سلامتی کی بجائے میاں محمد نواز شریف کے کہنے پر مسلم لیگی رہنمائوں اور خصوصی طور پر حامد ناصر چٹھہ کے محمد خان جونیجو کے ساتھ اندرونی روابط کی تفصیلات حاصل کرنے کے لئے بیٹھایا ہوا تھا۔ بریگیڈیئر امتیاز احمد کی رائے تھی کہ میاں محمد نواز شریف جتنی جلدی ممکن ہو سکے پاکستان مسلم لیگ پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل کر لیں کیونکہ جونیجو صاحب کی زندگی کا کوئی بھی بھروسہ نہیں تھا اور بریگیڈیئر امتیاز احمد کو یہ ڈر تھا کہ محمد خان جونیجو کی وفات کے بعد کہیں حامد ناصر چٹھہ پاکستان مسلم لیگ پر قابض نہ ہو جائیں۔ محمد خان جونیجو نے میاں محمد نواز شریف کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیئے ابتدائی تیاریاں بھی مکمل کر لی تھیں مگر زندگی نے جونیجو کو اتنی مہلت نہ دی کہ وہ میاں محمد نواز شریف کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر سکتے۔ 29 مئی 1988 ء کو محمد خان جونیجو کی منتخب حکومت کو کسی جواز کے بغیر ختم کر دیا گیا۔ اُس وقت میاں محمد نواز شریف پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ کے صدر اور وزیر اعظم پنجاب کے عہدے پر فائز تھے۔ جونیجو کو اس بات کا دُکھ تھا کہ نواز شریف نے محض اقتدار کے لالچ میں پارٹی صدر کا ساتھ دینے کی بجائے ایک فوجی ڈکٹیٹر کی حمایت کی تھی۔ 29 مئی 1988ء کے اُس واقعہ کے بعد نواز شریف اور محمد خان جونیجو کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے اور اسی بنیادی وجہ سے مسلم لیگ کے اندر موجود رہنمائوں کے آپسی اختلافات بھی شدت اختیار کر گئے تھے کیونکہ جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد محمد خان جونیجو نے الیکشنز میں حصہ لینے کے لیے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے شروع کر دیئے تھے۔ یاد رہے کہ میاں محمد نواز شریف کی سیاست میں پیدائش جنرل ضیاء الحق (مرحوم) کی مرہونِ منت ہوئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے دونوں دھڑوں میں اتحاد کب اور کیسے ہو،ا یہ تو ایک بہت لمبی کہانی ہے لیکن قصہ مختصر یہ کہ جب اُس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے دیکھا کہ مُلک میں انتخابات سر پر آگئے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے، جس کا براہِ راست فائدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ملے گا تو انہوں نے جونیجو سے رابطہ کیا اور کیا مجال کہ محمد خان جونیجو جیسے جمہوریت کے علمبردار نے اُس وقت اُف تک بھی کی ہو اور یوں صدر مملکت غلام اسحاق خان اور آرمی چیف کی بلاواسطہ حمایت آئی جے آئی 1988ء کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھاری منیڈیٹ سے محروم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ میاں محمد نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں صوبہ پنجاب کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے وفاق کے ساتھ محاذ آرائی کا سلسہ جاری رکھا اور 16 اگست 1990ء کو فوج کے اشارے پر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ یہی بنیادی وجہ تھی جس کے بعد میاں محمد نواز شریف وزیراعلیٰ ہائوس پنجاب سے وزیراعظم ہائوس اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ میاں محمد نواز شریف اگرچہ مُلک کے وزیر اعظم تھے لیکن انہیں شروع دن سے ہی اقتدار چھن جانے کا خطرہ لا حق رہا۔ یہاں پر ہمارے لیے سمجھنے والی بات یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو سیاست میں لانے والی بھی فوج اور سیاست سے محروم کرنے والی بھی فوج ہی ہے۔ خیر 26 فروری 1993ء کو جونیجو کا امریکہ میں انتقال ہو گیا اور 29 فروری 1993ء کو جب اُن کا جسدِ خاکی لاہور ایئرپورٹ پہنچا تو حامد ناصر چٹھہ اور میاں محمد نواز شریف نے ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا۔ حامد ناصر چٹھہ نے جونیجو کی میت کو کندھا دیتے وقت میاں محمد نواز شریف کو دھکا دیا اور محمد خان جونیجو کی میت سندھ لے کر روانہ ہو گئے جس کے بعد میاں محمد نواز شریف پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر بننے میں بھی کامیاب ہوگئے جبکہ حامد ناصر چٹھہ نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور اپنا ایک الگ گروپ بنا لیا۔ مسلم لیگ کی یہ دھڑے بندی آج تک قائم ہے۔ یاد رہے کہ میاں محمد نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ کی صدارت حاصل کرنے کے لیے جو حربے 1993ء میں استعمال کیے تھے، آج تک انہی حربوں کا سامنا وہ کر رہے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کے فوجی الیکشن کے بعد ابھی جنرل پرویز مشرف کو اقتدار حاصل کیے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ مسلم لیگ رہنمائوں کے دو گروپ اعجازالحق اور میاں اظہر کی قیادت میں پارٹی کا نیا صدر منتخب کروانے کے لیے سیاسی میدان میں نکل آئے۔ میاں اظہر اس سلسلے میں کامیاب رہے اور انہیں مسلم لیگ کا صدر چُن لیا گیا تھا لیکن ہمارے لیئے یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جب بھی مسلم لیگ کی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ بات ضرور ہمیں پڑھنے کو ملے گی کہ میاں اظہر کو پاکستان مسلم لیگ کا صدر بنوانے والی شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف (مرحوم) ہی تھے۔