ابراہیمی معاہدہ: اتحاد کا خواب یا عالمِ اسلام کا نیا امتحان

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

جب تاریخ کی سانسیں یروشلم کی زمین سے ٹکراتی ہیں تو وہ صرف ماضی کی گواہی نہیں دیتیں بلکہ مستقبل کی پیش گوئی بھی کرتی ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں یہودیت، عیسائیت، اور اسلام کی روحانی تاریخوں کا سنگم ہے۔ اور اب انہی دعووں اور جذبات کے بطن سے ایک ایسا معاہدہ جنم لے رہا ہے جو ظاہراً “امن” کی نوید بن کر سامنے آتا ہے مگر درپردہ ایک نئے تہذیبی تصادم کی گھنٹی بجا رہا ہے۔

ایران اور اسرائیل کے حالیہ ٹکراؤ اور اس کے بعد کی مفروضاتی “جنگ بندی” نے عالمی منظرنامے میں جس چیز کو سب سے نمایاں کیا وہ “ابراہیمی معاہدہ” ہے۔ امریکی سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر امن کے مسیحا کا نقاب اوڑھے منظر عام پر آئے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں مزید اسلامی ممالک کو اس معاہدے میں شامل کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان، سعودی عرب، انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے ممالک کو اس “عالمی برادری” میں شامل کرنے کے لیے خفیہ مذاکرات ہو چکے ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کیا یہ معاہدہ واقعی ایک مساوی “ابراہیمی اخوت” کی طرف پیش رفت ہے یا پھر یہ اسرائیل کی مذہبی اور سیاسی برتری کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے کا مہذب مگر مہلک حربہ ہے.

ابراہیمی معاہدہ محض جغرافیائی یا معاشی اتحاد نہیں بلکہ ایک نظریاتی خاکہ ہے جس کے تحت ابراہیمؑ کو مشترکہ جدِ امجد مان کر تینوں مذاہب کو ایک روحانی میز پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن خطرہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ “مساوات” عملی طور پر ایک فریق کی بالا دستی میں تبدیل ہو جائے۔

یروشلم کے قدیم پتھروں سے لے کر مکہ اور مدینہ کی روحانی فضا تک ہر چیز اس وقت ایک ایسی عالمی سیاست کا ہدف بن رہی ہے جو مذہبی اشتراکیت کے نام پر عقائد کی سرحدوں کو دھندلا رہی ہے۔ جب اسرائیل اپنے معاہدوں کے پیچھے فلسطین کی شہ رگ کترنے کی روش جاری رکھتا ہے، تو پھر یہ “ابراہیمی اشتراک” کہاں کا انصاف بنے گا.

امریکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ فروش ملک ہے اور مشرق وسطیٰ اس کی سب سے زیادہ کماؤ منڈی۔ اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کے نتیجے میں اسلحے کی تجارت کو ایک “قانونی” جواز حاصل ہو جائے گا۔ اور وہ مسلم ریاستیں جو اسرائیل کو تسلیم کر کے “امن” کی نوید خریدنا چاہتی ہیں درحقیقت اپنی نظریاتی شناخت کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔

مزید تشویش اس وقت جنم لیتی ہے جب بعض صہیونی اور عیسائی حلقے “ابراہیمی میراث” کے دعوے کے تحت خانہ کعبہ کو بھی اپنے نظریاتی نقشے میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یروشلم ایک مشترکہ ورثہ مان لیا جاتا ہے، تو کیا پھر مسجدِ اقصیٰ، خانہ کعبہ، مسجدِ نبوی، اور دیگر مقدسات بھی “مشترکہ عبادت گاہیں” کہلائیں گی؟ کیا امتِ مسلمہ کو اس سمت بڑھنے والے فکری سیلاب کا اندازہ ہے.

یہ وہ لمحہ ہے جب امتِ مسلمہ کو اس پرکشش سفارتی ڈھانچے کی چمک دمک سے آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ معاہدہ واقعی امن کی کنجی ہوتا تو فلسطینیوں کے زخم آج بھی تازہ نہ ہوتے۔ اگر یہ معاہدہ واقعی مساوات کا مظہر ہوتا تو غزہ کی ماؤں کی سسکیاں اقوامِ متحدہ کے کانوں تک ضرور پہنچتیں۔

ابراہیمی معاہدہ اس وقت محض ایک دستاویز نہیں بلکہ ایک آزمائش ہےامتِ مسلمہ کے شعور، اتحاد، اور مزاحمت کی آزمائش۔ اگر ہم نے اپنے عقائد، تاریخ اور مقدسات کی حفاظت نہ کی تو وہ وقت دور نہیں جب نظریاتی تقسیم عملی شکست میں ڈھل جائے گی۔

اور پھر دنیا شاید یہ سوال کرنے لگے: “کیا ابراہیمؑ صرف ایک قوم کے نبی تھے یا وہ اُس توحید کے علمبردار تھے جسے ہم نے سفارتی مسکراہٹوں کی نذر کر دیا؟”

Comments (0)
Add Comment