بہت سے لوگ شاید یہ تو ضرور جانتے ہوں گے کہ دنیا پور ایک پنجاب کا چھوٹا ساقصبہ ہے لیکن یہ شاید کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ ایک ایسی بہادر اور محب وطن ماں کی سرزمین بھی ہے جو وطن کی خاطر اپنے بچوں کی شہادت کو اعزاز سمجھتی ہے اور جس کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے یقینا” دنیا پور کے شہداء کی ماں کا جذبہ حب الوطنی ایک ناقابل فراموش داستان بن گیا ہے یہ ایسی ماں کی کہانی ہے جس نے اپنی کوکھ سے ایسے بہادر سپوت پیدا کئے جو وطن کی مٹی پر قربان ہو گئے ۔لیکن ماں کی زبان پر آج بھی کوئی شکوہ نہیں ،بلکہ صبر و شکر نمائیاں ہے ۔وہ آنکھیں جن میں آنسو بھی ہوں اور فخر بھی ،وہ دل جو بیٹوں کے بچھڑنے پر تڑپے تو ضرور مگر وطن کے نام پر قربانی پر نازاں بھی ہو ۔گزشتہ دنوں بلوچستان میں نو پاکستانی جوانوں کو بزدل دشمنوں نے مسافر بسوں سے اتاراور پھر گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا ۔اس سے قبل بھی ایسےالمناک واقعات ہوتے رہے ہیں جب یہ “فتنہ الہندوستان “کے نادیدہ شر پسند پاکستان کے امن کو خراب کرنے اور باہمی نفرت پھیلنے کے لیے ایسی شرمناک حرکتیں کرتے رہے ہیں ۔لیکن پاکستان کے بہادر لوگ کبھی ان سے مرعوب اور خوفزدہ نہیں ہوۓ اور نہ ہی ان کے جذبہ حب الوطنی میں کوئی کمی آئی بلکہ ہمیشہ ان عناصر کے شدید خلاف نفرت اور غصہ دیکھنے میں آیا ۔اس واقعہ میں شہید ہونے والے دو سگے بھائی اپنے والد کے جنازۓ میں شرکت کے لیے دنیا پور ( خانیوال ) آ رہے تھے ۔جو دوسری صبح دنیا پور میں دس بجےادا کیا جانا تھا ۔مگر بدقسمتی سے وہ بھی اس دہشت گردی اور بربریت کی زد میں آکر شہید ہو گئے اور باپ کے جنازۓ پر ان کے جسد خاکی ہی پہنچ سکے ۔شہادت کا بلند رتبہ پانے پر پورا دنیا پور ان نوجوانوں کی شہادت پر سوگوار تھا کیونکہ شہید ہمیشہ اپنے گھر کی نہیں بلکہ پورے علاقے کی عظمت اور شان کی علامت بن جاتے ہیں ۔دنیا پور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ان شہید بھائیوں کا ہوا جہاں پورشہر ہی نہیں پورا پاکستان امڈ آیا تھا ۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اپنے ہاتھوں میں پھولوں کے گلدستے پکڑے اپنے شہیدبیٹوں کی قبر پر جاتے ہوۓ وطن کی عظمت کا ترانہ “پیارے پاکستان اونچی تیری شان ” لبوںپر سجاۓ ان کی یہ عظیم ماں پوری قوم کی ماں دکھائی دیتی تھی بار بار دیکھنے والی اس ویڈیو نے پوری پاکستانی قوم کو افسردہ تو کر دیا لیکن اس ماں کو پوری قوم نے دلی خراج عقدت پیش کیا ۔پرعزم چہرے کی حامل شہداء بلوچستان کی اس عظیم ماں نے اپنے جذبات کا اظہارکرتے ہوۓ کہا کہ “میرے بیٹے شہید ہوۓ مگر میرا سر فخر سے بلند ہے “۔اس بلند مرتبت ماں کے جذبہ ایثار ،صبر ،استقامت اور وطن سے محبت نے پوری قوم کو بتا دیا ہے کہ دشمن کو دو ٹوک پیغام دیا جاۓ کہ بے گناہ اور معصوم لوگوں کی شہادت ہمارے لیے شکست نہیں بلکہ فخر ہے ۔بےشک پاکستان شہداء ،غازیوں ، درویشوں اور ولیوں کی سرزمین ہے یہاں بسنے والوں کے حوصلے اورعزم کی کوئی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارا دشمن اتنا گھٹیا اور بزدل ہے جو ہتھیاروں سے لیس ہوکر بھی ہماری افواج کا مقابلہ کرنے کی بجاۓ ہمارے معصوم اور نہتے بچوں اور جوانوں کو نشانہ بنا رہا ہے ۔ہماری فوج سے لڑنے کی تو ان بزدلوں میں ہمت ہی نہیں اس لیے معصوم عوام کو دہشت گردی سے ڈرانا چاہتا ہے ۔اسے یہ نہیں پتہ کہ یہ فوج بھی اسی عوام کا حصہ ہے اور ہر لمحہ بڑی بہادری اور دلیری سے اپنی بہادر افواج پاکستان کی پشت پر کھڑی رہتی ہے ۔زندگی کتنی بھی مشینی ہوجاۓ لیکن انسان کی زندگی میں جذبوں کی اہمیت نہیں بدلتی ۔جذبہ حب الوطنی بھی ایک ایسا معجزانہ جذبہ جو کسی قوم کو ایک لڑی میں پرو کر مشکل سے مشکل وقت آسانی سے گزار سکتا ہے ۔وطن سے محبت کا سچا جذبہ ہو تو قومیں آزمائشوں کی ہر گھڑی میں سرخرو ہوتی ہیں ۔دنیا پور کی اس ماں کے سچے جذبے اور ایثار کو خراج تحسین پیش کرنا پوری قوم پر فرض ہو چکا ہے ۔وطن کی مٹی گواہ رہنا کہ ہماری ماوں کے حوصلے پہاڑوں سے بھی زیادہ بلند اور چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہیں ۔
مجھے اس واقعہ کو دیکھ کر اپنی ایک کوٹ ادو کی مرحومہ چچی جان یاد آگئی جو قیام پاکستان کے وقت اپنے خاندان کی وہ واحد زندہ سلامت فرد اور خاتون تھی جو ہجرت کرکے اپنے خاوند کے ہمراہ پاکستان تک پہنچ سکی ۔ان کے والد ین ،بہن بھائی ،تمام عزیز واقارب سب کے سب ہجرت اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں شہید ہوگئے تھے ۔وہ شہیدوں کی بیٹی ،شہیدوں کی بہن ،شہیدوں کی بھتیجی اور بھانجی اور شہیدوں کی پوتی اور نواسی ہونے کا شرف رکھتی تھی ۔پورے پاکستان میں اس کا کوئی خونی رشتہ زندہ سلامت موجود نہ تھا ۔اس کے باوجود وہ عزم کا پہاڑ تھی خاوند جہاد کشمیر کا حصہ رہا ۔بیٹے جوان ہوےتو ملک کی سرحدوں کے محافط بنا دیے ۔مجھے یاد ہے کہ جب اس کا ایک سب سے چھوٹا اور لاڈلہ بیٹا کشمیر کے محاذ پر شہید ہوا تو اس کا شہید کا جسم خاکی بھی ہندوستان سے نہ مل سکا تھا ۔جب اس کی شہادت کی اطلاع اس بوڑھی ماں کو دی گئی تو وہ کہا کرتی تھی مجھ سے افسوس نہ کرو مجھے مبارکباد د ۔پہلے میں صرف شہداء کی بیٹی بہن ،پوتی ،نواسی ،بھتیجی ،بھانجی اور پھوپھی تھی اب ایک شہید کی ماں بھی بن گئی ہوں ۔مجھے اللہ نے یہ فخر اور مقام دیا ہے کہ میرا ہر رشتہ شہیدوں سے ملتا ہے ۔اپنے شہداء کی یاد میں اس کی آنکھ سے آنسو بہتے ضرور تھے مگر یہ آنسو اسکے فخر اور اپنے وطن سےمحبت کا ااظہار ہوتے تھے۔
لپٹ کے روتی نہیں ہیں کبھی شہیدوں سے
یہ حوصلہ بھی ہمارے وطن کی ماوں میں ہے
ماں دنیا پور کی ہو یا پھر کوٹ ادو اور یا پھر پورے پاکستان کے کسی بھی شہر کی ہو ان کے جذبے یکساں دکھائی دیتے ہیں ۔ہماری ماوں کے یہ ولولہ انگیز جذبے دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ اس ملک کی سلامتی اور بقا پر کبھی کوئی آنچ نہیں آسکتی کیونکہ اس ملک کی بنیادوں ایسی ہی بہادر ماوں کے لعلوں کو خون شامل ہے ۔یہ مائیں صرف ماں نہیں ہوتی ایک نظریہ ہوتی ہے ۔ایک ایسا نظریہ جو بتاتا ہے کہ حب الوطنی صرف نعرے لگانے سے نہیں بلکہ قربانی دینے سے ظاہر ہوتی ہے ۔جس معاشرے اور قوم میں ایسی مائیں ہوں وہ قوم کبھی جھک نہیں سکتی ۔دنیا پور کی یہ عظیم شہیدوں کی ماں نہ صرف اپنے بیٹوں کی شہادت پر صابر ہے بلکہ وہ اس ملک اور قوم کی ہر اس ماں کی نمائندہ بھی ہے جو اپنے لعلوں کو وطن کی مٹی پر نچھاور کرنے کے بعد بھی اپنے وطن کے دشمن کے خلاف حوصلے سے ڈٹی رہتی ہیں ۔ یہی جذبہ ہے جو ایک قوم کو زندہ رکھتا ہے ،یہی محبت ہے جو وطن کی بنیادوں کو مضبوط کرتی ہے اور یہی وہ مائیں ہیں جن کے بیٹے مٹی کی کوکھ میں اتر کر ملت کا چراغ بن جاتے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں ۔ہم تمام شہداء کے وارث ہیں ۔قربانیوں کے اس سلسلے کی ایک پوری تاریخ ہے جو ہمیشہ جاری رہے گی ۔اللہ ہماری ماوں کا یہ جذبہ سلامت رکھے ۔دنیا پور کی اس عطیم ماں کو ہمارا سلام عقیدت اور خراج تحسین پیش ہو ۔ہمیں فخر ہے اپنے دیس کی اس ماں پر بےشک انہوں نے ملک و وطن کے ساتھ ساتھ دنیا پور کی مٹی کا نام بھی ہمیشہ کے لیے روشن کردیا ہے ۔