“میرا مولا کرم ہو کرم”

احساس کے انداز تحریر :۔ جاویدایازخان

یہ مشہور کہانی بچپن میں اباجی اکثر سنایا کرتے تھے کہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کی دو بیٹیاں دو مختلف گھروں میں بیاہی گیں تھی ایک کی شادی ایک زمیندار اور زراعت پیشہ کے گھر ہوئی تو دوسری کی شادی اسی شہر میں ایک کمہار کے گھر ہوئی تھی۔ایک دن اس نے سوچا کہ دونوں ایک ہی شہر میں ہیں کیوں جاکر مل آوں ای دن ایک کے گھر اور دسرے دن دوسری بیٹی کے گھر ٹھہر کر خریت بھی لے آونگا اور سب سے مل بھی آونگا ۔وہ اپنی بیوی کے ہمراہ پہلے دن اس بیٹی کے گھر پہنچا جو ایک کاشتکار کی بیوی تھی تو وہ بڑے تپاک سے ملے بڑی خاطر مدارت کی تو  رات کو باپ نے پوچھا بیٹا سسرال میں کوئی مشکل  یا پریشانی تو نہیں ہے ؟ تو بیٹی بولی  اباجان باقی توسب ٹھیک ہے لیکن بارش کے لیے دعا کریں بڑی خشک سالی ہے بارش نہ ہوئی تو ہماری فصلیں نہ ہو سکیں گی  بارش بن تو رہی ہے پر برس نہیں رہی آپ کی دعا سے بارش برس جاۓ تو بات بن جاۓ  ہماری آمدنی کا سارا انحصار تو فصلوں پر ہی ہے بارش سے فصل تباہ ہوگئی تو سال بھر کیسے گزارا ہو گا ؟باپ نے کہا انشاللہ ضرور کروں گا ۔دوسرے روز یہ دونوں میاں بیوی دوسری بیٹی کے گھر پہنچے  جس کا خاوند کمہار تھا وہاں بھی بڑا سواگت  اور استقبال کیا گیا ۔باپ نے وہی سوال دوسری بیٹی سے بھی کیا کہ بیٹا تمہیں سسرال میں کوئی مشکل یا پریشانی تو نہیں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا نہیں اباجان کوئی خاص پریشانی  تو نہیں ہے بس یہ  دعا کریں کہ بارش نہ ہو   ابھی کچے برتن آوے میں برتن بنا کر رکھے ہیں اور بارش بھی بن رہی ہے ۔بارش  ہوئی تو   ہمارے کچے برتنوں کا آوے کا آوےہی برباد ہوجاۓ گا  اور سال بھر رزق کی تنگی اٹھانا پڑے گی ۔باپ بے چارہ کیا کہتا کہنے لگا اچھا بیٹا ضرور کرونگا اور دوسرے دن وہ میاں بیوی واپس ہوے تو وہ سوچ رہے تھے کہ دونوں بیٹاں پیاری ہیں دونوں کے رزق کا معاملہ ہے ۔ اب کس کے لیے دعا کریں اورکس کے لیے نہ کریں ؟ اسی شش وپنج دونوں بیٹیوں  کی متضاد خواہشات لیےوہ اپنے گھر واپس پہنچے ایک بیٹی کے لیے بارش مصیبت تھی جبکہ دوسری کے لیے باعث رحمت تھی ۔پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے کہ اۓ خدایا  !  جو ان دونوں  بیٹیوں کے لیے بہتر ہو وہی کر نا   تو ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا بہتر ہے ہماری خواہشات تیری حکمت کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں ۔بےشک ہماری خواہشات پوری نہ ہونا دعائیں قبول نہ ہونا  بھی ہمارے لیے بہتر ہوتا ہے ۔یقینا” توکل اور صبر ہی سب سے خوبصورت طریقہ ہے ۔یہ قصہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ زندگی کے معاملات میں سب کی ضرورتیں الگ الگ ہیں سب کی خواہشات یکساں کبھی نہیں ہوتیں ۔اصل دعا یہ  ہونی چاہیے کہ ہم رب کی رضا میں راضی ہیں  اللہ وہی کرۓ جو سب کے لیے بہتر اوربھلائی کا سبب بنے ۔بےشک ہم سب اس  ہی کی مخلوق ہیں اور وہی  ہم سب کی ضرورتوں کو  ہم سب سے بہتر سمجھتا ہے ۔

یہی زندگی  اور فطرت کا تضاد  ہے کہ پہلے ہم خشک سالی کا شکار تھے ہمارے دریاوں میں ریت اڑ رہی تھی ۔پینے کا پانی بھی نیچا ہوتا جارہا تھا ۔ہمارا ازلی اور کم ظرف دشمن سندھ طاس معاہدے سے منحرف ہو چکا تھا اور پانی روک کر آبی جارحیت کی دھمکیاں دے رہاتھا۔ہم بارشوں اور پانی کے طلبگار تھے ۔ہماری زراعت کا سارا  دارومدار ہی پانی پر ہے ۔پانی پر جنگ کی باتیں ہو رہی تھیں ۔ فصلوں کی تباہی کے خدشات سر اٹھا رہے تھے ۔نہریں سوکھ رہی تھیں  ٹوبے خشک ہو رہے تھے ۔ہمارے صحرا پیاس سے  اسقدر بے حال تھے  کہ پینے کا پانی بھی میسر نہ تھا چولستان میں پیاس اور خشک سالی سے  انسان تڑپ اٹھے تھے اور جانور مررہے تھے ۔پوری قوم پانی کے لیے دعا گو تھی ۔لیکن جب بادلوں نے اپنی حد سے  بڑھ کر برسنا شروع کیا تو وہی انسان جو کل پانی کا طلبگار تھا  آج فریاد کرتا دکھائی دیتا ہے کہ اے ہمارے رب  بارش تھم جاۓ ،پانی رک جاۓ ،سیلاب ٹل جاۓ ۔آج پھر جب پانی آیا ہے تو ہر جانب تباہی ہی تباہی ہے گھر مکان گر رہے ہیں ، سامان بہہ رہا ہے ،وہ فصلیں جن کے لیے پانی کی دعا کر رہے تھے آج پانی کی زیادتی سے ڈوب  کر تباہ ہو رہی ہیں ۔وہی جانور جو پیاس سے مر رہے تھے آج پانی میں ڈوب کر مر رہے ہیں ۔کچھ بھی نہیں بدلہ صرف حالات بدلے ہیں ۔ کبھی بادلوں کوترس کر پکارا جارہاتھا اور آج انہی بادلوں کو روکنے کی دعائیں کر رہے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ انسانی خواہشات  اور ضروریات کبھی ایک جیسی نہیں رہتیں وقت کے ساتھ بدل جاتی ہیں ۔وہی پانی جو کل تک زندگی سمجھا جارہا تھا آج تباہی اور موت کا سبب بن رہا ہے ۔اصل حقیقت یہ ہےکہ پانی میں بھی توازن چاہیے ۔پانی کم ہو تو قحط اور اگر زیادہ ہو تو سیلاب اور تباہی ۔یہی توازن نہ صرف قدرت کے نظام کی بنیاد ہے بلکہ انسان کی عقل اور شکرگزاری کا بھی امتحان بھی ہے ۔اس پاک ذات کی حکمت اور بہتری کو ہم کب جان سکتے ہیں ۔ہمارے لیے آسانیاں بھی وہی پیدا کرتا ہے اور مشکلات سے نکلنے میں مدد بھی وہی کرتا ہے ۔بےشک ہم ہی اس آفت کے خطاوار ہیں ۔ہم اپنی غلطیوں اور کوہتایوں کا اقرار کرتے ہیں ۔”بےشک ہمیں کثرت کی خواہش نے غفلت میں رکھا ” ہمیں معاف فرما دۓ ۔اللہ سے یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کےان ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزں کو بھی ہدایت دے جو ایسے حالات میں بھی لوگوں کی مشکلات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔ایک جانب یہ پانی کا سیلاب ہے تو دوسری جانب اس سے بھی خطرناک مہنگائی کا سیلاب منہ کھولے کھڑا  دکھائی دے رہا ہے ۔ ابھی سیلاب اور بارشیں جاری ہیں ،ابھی سیلابی   پانی اترا نہیں کہ مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے اور  سبزی اور فصلیں تباہ ہونے سے سبزیوں کے ریٹ اسقدر زیادہ ہوچکے ہیں کہ چکن اور بیف سے مقابلہ کر رہے ہیں ۔گندم ،چینی ،دالیں ،گھی اور دیگر اشیا خوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہیں ۔زندہ  قوموں پر ایسے امتحان آتے رہتے ہیں ہمیں باہمی یکجہاتی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔اس رب کی حکمت یہی ہے کہ ہم قومی اور معاشی استحکام کے لیے متحد ہو کر اس آزمائش کا سامنا کریں اور انسانی ہمدردی کی مثال قائم کریں ۔

یوں لگتا ہے کہ جیسے انسان آج وہی باپ ہے  اور یہ زمین اس کی دو بیٹیاں ہیں ایک کو بارش چاہیے دوسری کو سکون چاہیے لیکن فیصلہ اب بھی اسی ذات کے ہاتھ میں ہے جس کے حکم سے بارش برستی اور رکتی ہے ۔اس کی حکمت اور بھلائی کو ہم نہیں جان سکتے ۔آئیں سب ملکر دعا کریں  کیونکہ یہی وقت دعا ہے کہ اللہ ہم کسی امتحان  یا آزمائش کے قابل  ہرگز نہیں ہیں ہم تو بہت چھوٹی   سوچ اور خواہشات رکھتے ہیں ۔وہی جانتےہیں جو  بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں اپنی رحمت سے وہ کچھ عطا فرما جو ہمارے سب کے حق میں بہتر ہو ۔یہ بارش ،یہ سیلاب، یہ طوفان ،اور زلزلے تیرے حکم سےہی  ہمارے لیے زحمت سے رحمت بن سکتے ہیں ۔تیرا کرم ہی ہمارے حالات بدل سکتا ہے ۔اس لیے “میرا مولا کرم ہو کرم تجھ سے فریاد کرتےہیں ہم “یااللہ ہم بہت بےبس اور کمزور ہیں اور اس لاچاری  کے عالم میں ایسے مزید دکھ سہنے کی سکت وہمت  نہیں رکھتے ۔ہم پر اپنا خصوصی کرم فرما دے ۔آمین !

ایک نظر اس جانب مولا

تیرے ہی انسان کھڑے ہیں

Comments (0)
Add Comment