اصولوں کا کھیل نہیں، مفاد کی چال ہے

(تحریر :رخسانہ سحر )

کہتے ہیں اصولوں پر چلنے والے لوگ معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ مگر موجودہ دور میں اصول اب کتابوں، تقریروں اور نصاب تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ آج جو چیز سب سے زیادہ معنی رکھتی ہے، وہ ہے “مفاد”۔ سچ یہی ہے کہ اصول آج صرف وہاں تک قائم ہیں جہاں تک وہ ہمارے فائدے میں ہوں۔ جیسے ہی ذاتی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے، اصول قربان کر دیے جاتے ہیں۔
اس کا بہترین مشاہدہ ہمیں روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں نظر آتا ہے۔ ایک مکھی اگر چائے میں گرے تو ہم پوری چائے پھینک دیتے ہیں۔ مگر اگر وہی مکھی دیسی گھی میں گرے تو صرف مکھی نکال کر گھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ چائے سستی ہے اور دیسی گھی مہنگا۔ یعنی معیار فیصلہ نہیں کرتا، قیمت کرتی ہے۔ اصول نہیں، مفاد فیصلہ کرتا ہے۔
معاشرے کی سطح پر یہی رویہ ہم انسانوں کے ساتھ بھی رکھتے ہیں۔ اگر کوئی کمزور شخص غلطی کرے تو ہم اسے برا بھلا کہتے ہیں، اس کی عزت اچھال دیتے ہیں۔ لیکن اگر وہی غلطی کسی بااثر شخص سے سرزد ہو تو ہم اس کے لیے جواز تراشتے ہیں، اسے معاف کر دیتے ہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔

آج عدل بھی مفاد پر مبنی ہو چکا ہے۔ فیصلے کردار دیکھ کر نہیں، حیثیت دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔ اخلاقیات بھی امیر کے لیے الگ، غریب کے لیے الگ ہو چکی ہے۔ اگر کوئی غریب شخص ایمانداری سے کام کرے تو اسے بیوقوف کہا جاتا ہے، اور اگر کوئی بااثر شخص دھوکہ دے تو اسے “سمجھدار کاروباری” مانا جاتا ہے۔

ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم واقعی ایک اصول پسند قوم ہیں؟ یا صرف اپنے مفادات کے غلام بن چکے ہیں؟ کیا ہم نے اپنے ضمیر کو قیمتوں میں تول دیا ہے؟ کیا سچ، عدل اور انصاف اب صرف کمزوروں کے لیے رہ گئے ہیں؟

اصل اصول وہ ہوتے ہیں جو مشکل وقت میں بھی نہ بدلے جائیں۔ جو طاقتور اور کمزور، امیر اور غریب، سب کے لیے یکساں ہوں۔ ورنہ یہ اصول نہیں، مفاد پرستی کے جواز ہیں۔

کہنے کو ہم ایک اسلامی، اصول پسند اور بااخلاق معاشرے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اگر ہم اپنے اطراف میں نظر ڈالیں تو ہمیں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ ہمارے فیصلے، رویے اور تعلقات اصولوں پر نہیں بلکہ مفاد پر استوار ہیں۔ اصول تب تک ہی ہمارے لیے اہم ہوتے ہیں جب تک وہ ہمارے فائدے میں ہوں۔ جیسے ہی اصولوں کی پیروی سے ذرا سا نقصان ہونے لگے، ہم انہیں “لچک” دینے لگتے ہیں، پھر وہی اصول ہمارے لیے “قدامت پسندی” یا “بے وقوفی” بن جاتے ہیں۔
یہی رویہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ اگر ایک غریب معمولی غلطی کرے تو اس کی شخصیت پر ہمیشہ کے لیے داغ لگ جاتا ہے، لیکن اگر امیر یا بااثر شخص سنگین جرم بھی کرے، تو لوگ کہتے ہیں: “چلو، انسان ہی تو ہے، غلطی ہو گئی۔”
رشتہ داریاں، جو پہلے محبت، اخلاص اور صبر سے جڑی ہوتی تھیں، آج مفادات سے مشروط ہو چکی ہیں۔ جن رشتہ داروں سے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں، وہ نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی کوئی رشتہ فائدہ مند بن جائے — خواہ مالی ہو، سماجی ہو یا سیاسی تو اسی رشتہ دار کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اصول، اخلاقیات، وفاداری، سب اس مفاد کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

عدلیہ ہو یا عام معاشرتی رویہ، انصاف کی دیوی کی آنکھیں اب بینا ہو چکی ہیں اور وہ ہر کیس میں پہلے “ملزم کی حیثیت” دیکھتی ہے، پھر فیصلہ سناتی ہے۔

اگر ایک مزدور رشوت دے تو اسے “بدعنوان” کہا جاتا ہے، لیکن اگر ایک بیوروکریٹ، صنعتکار یا سیاستدان کروڑوں کی کرپشن کرے تو اسے “سیاست کی چالاکی” یا “کاروباری حکمت عملی” کہا جاتا ہے۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا؟
یہ مفاد پرستی صرف سماجی رویوں تک محدود نہیں بلکہ سیاست، مذہب اور یہاں تک کہ عبادات تک میں سرایت کر چکی ہے۔

آج کا سیاستدان اصولوں کی بات کرتا ہے، لیکن جب اقتدار کا سوال ہو، تو وہ نظریہ، وعدے، اور منشور سب کچھ بدل دیتا ہے۔ ایک وقت میں جس پارٹی کو “کرپٹ مافیا” کہا جاتا ہے، اگلے الیکشن میں اسی کے ساتھ اتحاد کر لیا جاتا ہے، صرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے۔
یہ کہنا تلخ ہے، مگر سچ ہے کہ مذہب کو بھی اب مفاد کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ دین، جو خالص اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے، اسے شہرت، پیسہ یا اثر و رسوخ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہم نماز بھی پڑھتے ہیں، زکوة بھی دیتے ہیں، لیکن اگر وہی عبادات ہمیں کوئی فائدہ نہ پہنچائیں تو بہت جلد ان میں سستی آ جاتی ہے۔ تو کیا یہ عبادت ہے یا لین دین؟

یہ ساری صورتحال دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بحیثیت قوم کردار کے دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم نے “صحیح اور غلط” کا معیار ذاتی مفاد کو بنا لیا ہے۔ ہم وہی بات درست سمجھتے ہیں جو ہمیں فائدہ دے، اور جو بات نقصان دے وہ خواہ حق ہی کیوں نہ ہو، ہم اسے رد کر دیتے ہیں۔

اصول وقتی فائدے کے لیے نہیں، طویل المدت فلاح کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عدل، محبت، عزت اور سکون ہو تو ہمیں مفاد پرستی کے خول سے باہر نکل کر اصولوں کی چھاؤں میں آنا ہوگا۔
ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ سچ، سچ ہوتا ہے — خواہ کوئی غریب کہے یا امیر۔

انصاف، انصاف ہوتا ہے چاہے وہ دوست کے خلاف ہو یا دشمن کے حق میں۔
اور کردار، وہی معتبر ہوتا ہے جو فائدے کے وقت بھی اپنے اصول نہ چھوڑے۔
آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کن کیمپوں میں کھڑے ہیں مفاد پرستوں کے، یا اصول پرستوں کے؟ اگر ہم واقعی ایک بہتر معاشرہ، ایک بہتر نسل، ایک بہتر مستقبل چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ:
اصول وقتی نقصان دے سکتے ہیں، مگر دائمی عزت بھی دیتے ہیں؛ اور مفاد وقتی​

Comments (0)
Add Comment