کرۂ ارض پر بُجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

تحریر: خالد غورغشتی

فِضاؤں پر ایک عجیب غمگین سا مزاج چھایا ہوا تھا۔ گھٹائیں آج کچھ زیادہ ہی بیتاب دکھائی دیتی تھیں، جیسے برس کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہوں۔ مون سون اپنے جوبن پر تھا۔ رم جم نے باقاعدہ آغاز کیا تو دبے سِہمے سب اپنے آشیانوں کی تلاش میں لگ گئے۔ بادل آسمان سے برسے اور زمین پر گویا قہر بن کر چھا گئے۔

کئی دنوں کی پیاسی زمین، پیاس بُجھانے کی بجائے؛ موت کا پروانہ باٹنے لگی۔ ہر سمت سیلاب کی طغیانی نے ڈیرے جما لیے۔ پانی جیسے ہوا کی رفتار سے سب کچھ بہا لے جانے پر تُل گیا۔ موسم طوفان کی صورت میں سب کچھ نگلتا جا رہا تھا۔ زمین جو کبھی پناہ دیتی تھی، اب پانی بن کر کشتیوں میں تبدیل ہو گئی تھی۔ موت کی طرح رقص کرتی ہوئی زندگیاں نگلنے لگی تھی۔

ریت اور مٹی پانی میں گھل مل کر دریائے چناب کا منظر پیش کرنے لگے۔ کئی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، پکے شہر مٹی کے ڈھیر بن گئے۔ لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا سب کچھ ڈوبتا ہوا دیکھتے رہے اور بے بسی سے ہاتھ ملتے رہ گئے۔

پڑوسی ملک نے اس منظر کو تماشہ سمجھ کر جشن منایا اور اپنے دریاؤں کا رُخ بھی ہماری جانب موڑ دیا۔ نتیجتاً سیلاب اس قدر بڑھا کہ زمین کو چیرتا ہوا، خیبر پختونخوا سے ہوتا ہوا پنجاب کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگا۔

ہر طرف عمارتیں پانی میں تیرتی دکھائی دینے لگیں۔ کہیں انسانی لاشیں تو کہیں جانوروں کے بے جان جسم، پانی پر موت کا رقص کرتے ہوئے تیرتے رہے۔ جو زندگی کل تک ہنستی کھیلتی نظر آتی تھی، آج وہ بے جان ہو کر پانی کی موجوں کے حوالے ہوگئی۔

یہ کوئی ایک دن کی آزمائش نہیں تھی۔ پچھلے اٹھہتر سالوں سے وقفے وقفے سے یہی داستان دہرائی جا رہی ہے۔

ہماری قوم خوابِ غفلت میں پڑی ہے، جیسے وہ خواب میں جنت کے نظارے کر رہی ہو مگر حقیقت میں زندگی کانٹوں اور طوفانوں کی راہوں پر گزار رہی ہے۔ ہم نے ترقی کا خواب دیکھا مگر حقیقت میں نالیاں بند، نکاسی کا نظام درہم برہم اور منصوبہ بندی صرف کاغذوں تک محدود رہی۔ ہم نے دریا کو راستہ دینے کے بجائے، اس کے راستے پر بستیاں بسا لیں۔ قدرت نے خبردار کیا تو ہم نے آنکھیں مُوند لیں۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم قدرت کے پیغام کو سُنیں۔ ہمیں اجتماعی شعور بیدار کرنا ہوگا، زمین کے ساتھ امن کا رشتہ استوار کرنا ہوگا اور وہ چراغ جو ہر سال بُجھ جاتے ہیں، اُن کی روشنی کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی روش بدلنی ہوگی۔ ورنہ ہر سال چراغ بُجھتے رہیں گے اور ہم صرف آنسو بہاتے رہ جائیں گے۔

کیفی اعظمی کیا خوب اس سارے منظر نامے کی تصویر کشی کر گئے:

کیا جانے کس کی پیاس بُجھانے کِدھر گئیں
اس سر پہ جُھوم کے جو گھٹائیں گُزر گئیں،

دیوانہ پُوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار
کُچھ بستیاں یہاں تھیں بتاؤ کِدھر گئیں،

اب جس طرف سے چاہے گُزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اُتر گئیں،

پیمانہ ٹُوٹنے کا کوئی غم نہیں مُجھے
غم ہے تو یہ کہ چاندنی راتیں بِکھر گئیں،

پایا بھی ان کو، کھو بھی دیا، چُپ بھی ہو رہے
اک مختصر سی رات میں صدیاں گُزر گئیں…!

Comments (0)
Add Comment