عنوان آئی ایم ایف کے بغیر پاکستان کی تباھی یا خود انحصاری ؟

تحریر: محمد ندیم بھٹی

پاکستان کی معیشت ایک طویل عرصے سے قرضوں کے سہارے چل رہی ھے۔ ان قرضوں میں سب سے نمایاں کردار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کا رہا ھے۔ آئی ایم ایف نے کئی دہائیوں سے پاکستان کو بیل آؤٹ پیکجز دیے ہیں، جن کی بدولت نہ صرف معیشت کو وقتی سہارا ملا بلکہ ملکی مالیاتی نظام دیوالیہ ہونے سے بھی بچا۔ لیکن اب اگر فرض کریں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرضے دینا بند کر دے تو اس کے اثرات نہایت شدید اور دور رس ھوں گے۔ اس کالم میں آپ سے مختلف صورتحال کے مختلف پہلوؤں پر بات کروں گا۔
آئی ایم ایف کے بغیر پاکستان کو سب سے پہلے جس بحران کا سامنا ھو گا وہ زرمبادلہ کے ذخائر کا ھوگا۔ آئی ایم ایف کی قسطیں موصول ہونے پر نہ صرف ذخائر میں اضافہ ہوتا ھے بلکہ دیگر مالیاتی ادارے جیسے ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور بعض دوست ممالک بھی قرض دینے کے لیے آمادہ ھو جاتے ہیں۔ جب آئی ایم ایف کی چھتری ختم ھو گی تو ان اداروں کا اعتماد بھی متزلزل ھو جائے گا۔ ایسے میں ڈالر کی دستیابی محدود ھو جائے گی، امپورٹس بند ہو جائیں گی اور مہنگائی کا ایک نیا طوفان جنم لے گا۔
پاکستان کی درآمدی معیشت اس وقت کئی لازمی اشیاء جیسے پیٹرولیم مصنوعات، دالیں، گھی، ادویات اور صنعتی خام مال پر انحصار کرتی ہے۔ زرمبادلہ کی کمی کی صورت میں یہ اشیاء درآمد نہیں ہو سکیں گی اور ان کی قلت پیدا ھو جائے گی۔ اس قلت کا براہِ راست اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑے گا۔ گھی، آٹا، دالیں اور پیٹرول جیسی بنیادی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔ پہلے ہی مہنگائی 30 سے 35 فیصد کے آس پاس ھے، آئی ایم ایف کے بغیر یہ شرح 50 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ھو سکتی ھے۔
مالیاتی طور پر بھی حکومت کو شدید چیلنجز کا سامنا ھو گا۔ پاکستان ہر سال اربوں ڈالر کے قرضے واپس کرتا ھے جن کی ادائیگی کا بڑا انحصار آئی ایم ایف کی قسطوں پر ہ
ھوتا ھے۔ اگر یہ قسطیں رک گئیں تو حکومت کے پاس ادائیگی کی صلاحیت باقی نہیں رہ
ھے گی، جس سے ڈیفالٹ کا خطرہ یقینی
ھو جائے گا۔ ڈیفالٹ کا مطلب ھو گا کہ پاکستان عالمی مالیاتی منڈیوں میں اپنا اعتماد کھو دے گا، اور سرمایہ کاری رک جائے گی۔
آئی ایم ایف کی غیر موجودگی میں روپے کی قدر تیزی سے گرنے کا امکان ھے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ جب بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے، روپیہ ڈالر کے مقابلے میں کمزور ھوا۔ اگر مکمل طور پر آئی ایم ایف سے ناطہ ٹوٹ جائے تو روپیہ 400، 500 یا اس سے بھی زیادہ فی ڈالر کی سطح پر پہنچ سکتا ہ
ھے۔ اس سے درآمدی اشیاء مزید مہنگی ھوں گی اور مہنگائی کا دائرہ مزید وسیع ہو گا۔
پاکستان کے اندرونی نظام پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ حکومت جب مالیاتی طور پر کمزور ھو گی تو ترقیاتی منصوبے روکنے پڑیں گے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی مشکل ھو جائے گی، اور عوامی فلاحی اسکیمیں بند کرنی پڑیں گی۔ غریب اور متوسط طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو گا، جو پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پس رہا ھے۔
سیاسی طور پر بھی آئی ایم ایف کے بغیر حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔ عوام جب مہنگائی، بیروزگاری اور بدامنی سے تنگ آ جائیں گے تو وہ سڑکوں پر آئیں گے۔ سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گا، حکومتیں کمزور ھوں گی اور ملک میں افراتفری کا ماحول جنم لے گا۔ ان حالات میں بیرونی سرمایہ کار بھی پاکستان سے منہ موڑ لیں گے، جس سے معاشی تنزلی مزید گہری ہو جائے گی۔
دوسری جانب، اگرچہ آئی ایم ایف کے بغیر خطرات بے شمار ہیں، مگر اس صورتحال میں کچھ مواقع بھی پوشیدہ ہو سکتے ہیں۔ مثلاً اگر حکومت سیاسی عزم کے ساتھ اصلاحات کا آغاز کرے، اپنے اخراجات میں کمی کرے، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے، برآمدات میں اضافہ کرے اور کرپشن کا خاتمہ کرے تو ہم بتدریج ایک خود کفیل معیشت کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے سخت فیصلے کرنے
ھوں گے جن میں سبسڈی ختم کرنا، خسارے والے ادارے نجی شعبے کو دینا، زراعت و صنعت کو فروغ دینا اور کاروبار کے لیے آسانیاں پیدا کرنا شامل ہیں۔
آئی ایم ایف کے بغیر گزارا ممکن ھے مگر اس کے لیے طرزِ حکمرانی، سوچ اور پالیسیوں میں انقلابی تبدیلی لانا ھو گی۔ ہمیں چین، ترکی، ملائیشیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک سے سیکھنا ھو گا جنہوں نے معاشی خود انحصاری کو ترجیح دی۔ برآمدات پر توجہ دینا ھو گی، آئی ٹی، زراعت اور صنعت کے شعبوں میں جدت لانا ھو گی اور عوام کو ٹیکس دینے کے قابل اور آمادہ بنانا ھو گا۔
اگر ہم ان اصلاحات کو نہ اپنائیں اور آئی ایم ایف کے بغیر بھی وھی پرانا نظام جاری رکھیں تو ہمارا مالیاتی ڈھانچہ چند ماہ میں زمین بوس ھو سکتا ھے۔ پاکستان کی معیشت اس وقت ایک نازک موڑ پر ھے جہاں ہر فیصلہ یا تو ہمیں تباہی کی طرف لے جا سکتا ہے یا ترقی کی طرف۔ ہمیں یہ طے کرنا ھے کہ ہم کب تک دوسروں کے رحم و کرم پر زندہ رہنا چاہتے ہیں، اور کب اپنی قسمت کے فیصلے خود کرنے کی ہمت پیدا کریں گے۔
عوام کا بھی یہ فرض بنتا ھے کہ وہ صرف تنقید نہ کریں بلکہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے عملی طور پر اپنا کردار ادا کریں۔ کرپشن کے خلاف آواز بلند کریں، ٹیکس دیں، مقامی مصنوعات خریدیں، توانائی کی بچت کریں، اور ان نمائندوں کو ووٹ دیں جو ملک کو قرضوں کی زنجیروں سے نکالنے کا عزم رکھتے ھوں۔
آخر میں حکومتِ پاکستان، خاص طور پر وزیر اعظم اور وزیر خزانہ سے اپیل ھے کہ وہ آئی ایم ایف کے بغیر معیشت چلانے کے قابل ہونے کی سنجیدہ منصوبہ بندی کریں۔ وقتی بیل آؤٹ پیکجز کی بنیاد پر ملک نہیں چلایا جا سکتا۔ ہمیں اب

Comments (0)
Add Comment