تحریر ؛۔ جاویدایازخان
کہتے ہیں دل کی کوئی قوم کوئی نسل ،سرحد یا کوئی وارثت نہیں ہوتی شاید کوئی مذہب اور فرقہ بھی نہیں ہوتا ۔ دل تو بس ایک دل ہی ہوتا ہے ۔وہ جہاں اور جس سے لگ جاے ٔ بس اسی کا ہو جاتا ہے ۔سب سے بڑھ کر دل تو بےزبان ہوتا ہے وہ کسی بھی جسم میں دھڑکے تو ایک سی ہی دھک دھک کی آواز سنائی دیتی ہے۔ٹرانسپلانٹ اور پیوند کاری کا سلسلہ جو خون کے عطیات سے شروع ہوا تھا پھر آنکھوں کے عطیات اور ٹرانسپلانٹ تک پہنچا اور پھر گردوں ۔جگر کی کامیاب پیوند کااری کے بعد اب یہ سلسلہ دل کی کامیاب تبدیلی تک جا پہنچا ہے۔آج بےشمار لوگوں کو ان عطیات کی وجہ سےاپنی آنکھوں سے دیکھنے کی سہولت میسر ہو چکی ہے ۔گردو ں کے مریض بآسانی عطیہ دیکر گردے ٹرانسپلانٹ کر ا سکتے ہیں ۔ کبھی سب سے مشکل کام جگر کی پیوند کاری کو سمجھا جاتا تھا ۔لیکن یہ بھی عطیہ کے ذریعہ اب پاکستان میں ہی ممکن ہو چکی ہے ۔۔البتہ دل کا معاملہ ذرا مختلف اور مشکل ہوتا ہے ۔نہ تو اسے عطیہ کرنا ہی آسان فیصلہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس کو ٹرانسپلانٹ کرنا اتنا آسان ہوتا ہے ۔ ہمارے یہاں تو دل عطیہ کرنے کی کوئی مثال کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے ۔پاکستان میں اعضاء عطیہ کرنے کا رجحان قطعی نہیں پایا جاتا اس لیے آنکھیں عموما” سری لنکا سے لائی جاتی ہیں جبکہ جگر ،گردوں کے ٹرانسپلانٹ کے لیے کسی قریبی عزیز کو عطیہ کرنا پڑتا ہے ۔پاکستان میں سندھ گھمبٹ میں موجود جگر ٹرانسپلانٹ کا عالمی معیار کا ہسپتال بےشمار زندگیوں کو بچا چکا ہے ۔گردوں کی پیوندکاری کے لیے کراچی میں ڈاکٹر ادیب رضوی کی خدمات کا اعتراف بین الااقوامی طور کیا جاتا ہے ۔پاکستان میں ماہرین اور ڈاکٹرز کی کمی نہیں ہے ضرورت صرف ان پر توجہ دینے کی ہوتی ہے ۔بہر حال بقا ء انسانیت کے لیے ہر اٹھنے والا قدم قابل تحسین ہوتا ہے ۔
میڈیا رپورٹس اور سوشل میڈیا کے شور کے مطابق بھارتی ڈاکٹرز نے ایک انیس سالہ کراچی پاکستان سے تعلق رکھنے والی عائشہ روشن دل کے عارضے میں مبتلا اور موت وزندگی کی کشمکش سے لڑتی ہوئی اس لڑکی کو ایک انہتر سالہ بھارتی شہری کا دل لگا کر کامیاب آپریشن سے پیوندکاری کرکے ایک نئی تاریخ ہی نہیں بلکہ عائشہ روشن کو ایک نئی زندگی کی نوید بھی دے دی ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ عائشہ کو ۲۰۱۹ء میں دل کا دورہ پڑنے اور ہارٹ فیل ہونے کے بعد اس کے اہل خانہ اسے بھارت لے گئے تھے ۔جہاں اس وقت کے ایک مشہور کارڈیک سرجن نے مبینہ طور پر ہارٹ ترانسپلانٹ کا مشورہ دیا ۔اس مشورے کے بعد عائشہ کو ویٹنگ لسٹ پر ڈال دیا گیا اور ساتھ ہی اس کے دل کو پمپ کرنے میں مدد کرنے کے لیے اسے ایک لیفٹ وینٹر یکولر اسسٹ ڈیوائص دیا گیا تھا ۔تاہم عائشہ کہ صحت بگڑتی جارہی تھی اس کے دل کا دائیں جانب سے کام کرنے لگا تھا اور دل کا پمپ بھی لیک ہوگیا تھا ۔اس تشویش ناک صورتحال میں والدین کے لیے اسکی تکلیف دیکھنا مشکل ہو چکا تھا لیکن وہ حوصلہ نہٰں ہارے ۔ایک رکاوٹ یہ بھی تھی کہ اس پیوند کاری پر ایک کثیر رقم درکا تھی جو ان کے پاس نہ تھی ۔عائشہ روشن کی والدہ کے مطابق ڈاکٹرز نے انہیں بھارت آنے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی مالی مدد کے لیے اس خاندان کا ایشوریم ٹرسٹ سے رابطہ بھی کرایا کیونکہ اس انسٹی ٹیوٹ کےپروفیسر ڈاکٹر بالا کرشنن اور ان کی ٹیم کے مطابق اس کا واحد آپشن فوری ٹرانسپلانٹ ہی تھا ۔ایسے میں اس پاکستانی لڑکی کو ایک ۶۹ سالہ بھارتی شہری جسکا تعلق دہلی سے بتایا جاتا ہے اپنا دل عطیہ کرکے نئی زندگی بخش دی ۔ میڈیا کے مطابق عائشہ کے اس ہارٹ ٹرانسپلانٹ پر بھارتی پینتالیس لاکھ روپے کا خرچ آنا تھا جسے متعلقہ ہسپتال کے ڈاکٹرز اور چنئی میں قائم ایشور یام ٹرسٹ نے برداشت کیا ۔آج عائشہ جو مستقبل میں ایک فیشن ڈئزائنر بننا چاہتی ہے اس کامیاب پیوندکاری کے بعد پاکستان واپسی کے لیے تیار ہے۔اپنی کامیاب سرجری کے بعد امید وتشکر سے لبریز عائشہ اور اسکے والدین نے اپنی بےپناہ خوشی کا اظہار کیا ہے اور ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ ہسپتال اور ٹرسٹ کا بھی شکریہ ادا کیا ہے ۔اب دہلی میں دھڑ کنے والا دل پاکستان میں دھڑکے گا ۔کیا اہی خوبصورت امتزاج ہے کہ اب ایک ہندوستانی دل ایک پاکستانی کے سینے میں دھڑکے گا ۔عائشہ روشن اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ اسے عطیہ شدہ دل بروقت موصول ہوگیا جسکا کوئی دعوی دار بھی نہیں تھا ورنہ کسی غیر ملکی کو ایسا عضو نہیں مل سکتا ۔بہر حال عائشہ کو نئی زندگی اور ایک نیا دل مبارک ہو ۔اللہ اسے طویل زندگی اور صحت عطا فرماے۷ تاکہ وہ اپنی زندگی کے دیرینہ خواب پورے کرسکے ۔
مجھے ایک جانب تو پاکستانی عائشہ کی نئی زندگی اور روشن مستقبل کی بےحد خوشی ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بےشمار سوالات بھی ذہن میں ضرور جنم لیتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ پاکستان میں ممکن کیوں نہیں ہوسکا ؟۔ناجانے کتنے ہی نوجوان اس سہولت کےپاکستان میں میسر نہ ہونے سے اپنی زندگی کی بازیاں ہار جاتے ہیں ۔پاکستان میں ہارٹ ٹرانسپلانٹ کی سہولت کا نظام موجود نہیں ہے اور ماہرین کی بھی عدم دستیابی ہے ۔تاہم کہتے ہیں کہ علاج کے لیے ملکوں اور مذہب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی بھارت سے یہ علاج کرانے کی یہ سہولت مہیا کی جانی چاہیے ۔جب تک یہ سہولت یہاں پاکستان میں دستیاب نہیں ہوتی تمام تر پابندیوں کا اطلاق ان زندگی بچانے والے مریضوں پر نہیں ہونا چاہیے میڈیکل گراونڈ پر فوری ویزہ دیا جانا چاہیے ۔دوسری جانب ہمیں فوری طور اس طرح کی سہولیات پاکستان میں مہیا ء کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس علاج کے ماہرین کی تربیت کا خصوصی انتظام و اہتمام کرنا چاہیے تاکہ بیرون ملک سفر کی غیر ضروری تکلیف اور خرچ سے بچا جا سکے ۔ گو ہمارے پاکستان میں بےشمار فلاحی ادارے بہترین کام کر رہے ہیں اور مختلف قسم کی طبی امداد اور سہولتیں فراہم کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود مزید ایسے ادرۓ بناے جانے چاہیں جو مستحق افراد کو اس قسم کے علاج میں فوری رہنمائی او ان کی ر مالی معاونت کر سکیں ۔