پاکستانی قوم بھی ابھی تک عوامی قوم نہیں بلکہ عوامی بھیڑ اور ہجوم ہی بنی ہوئی ہے ۔ اس بھیڑ اور ہجوم میں سے نجوم تلاش کرنے والے مولانا ظفر علی خان فاؤنڈیشن کے چیئرمین محترم خالد محمود بڑی بصیرت رکھتے ہیں اور وہ ہیرے تلاش کر لیتے ہیں انہوں نے قیوم نظامی کی کتاب کی تقریب رونمائی کو پذیرائی میں بدل دیا اور جلیل القدر انسانوں کو بلایا وہ واقعی قابل ستائش ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے فکر اقبال شعبہ خواتین کی سربراہ کی دورس نگاہ کا یہ اعجاز ہے کہ انہوں نے اپنی موجودگی سے ماحول میں آسودگی پیدا کر دی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ محترمہ ثروت روبینہ کی کارکردگی کا حسن ماحول میں چاندنی بکھیر رہا تھا اور یہ تقریب کامیاب ترین رہی قیوم نظامی ہمارے ملک کے نامور دانشور اور ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کے جیالے تھے اور اس وقت وہ فراست سے زیادہ فصاحت و بلاغت سے کام لیتے تھے اور آج وہ دلائل و براہین کی قوت سے فصاحت و بلاغت کو نذر آتش کر دیتے ہیں ۔ تقریب کی روداد لکھنے والے لکھیں گے میں اس وقت اپنی نئی نسل کو اس قومی ہیرو کی زندگی کی کتاب کے چند اوراق پلٹتا ہوں وہ ضرور مطالعہ کریں ۔ قیوم نظامی پاکستانی عوام کو حقیقی قوم بنا سکتے ہیں اور ان کی فکری رعنائیوں کی قندیلیں نسل نو کے سینوں میں فروزاں ہو سکتیں ہیں ۔ یاد رہے کہ فکر اوبال فورم کے صدر توقیر احمد شریفی کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں اور آج وہ کرسی ء صدارت پر جلوہ افروز تھےاور سرپرست اعلیٰ فکر اقبال فورم پروفیسر حسن عسکری کا باطنی حسن چہرے پر چاندنی بکھیر رہا تھا ۔ قیوم نظامی کے حالات زندگی ملاحظہ فرمائیں
قیوم نظامی کی شخصیت کو سمجھنا، گویا ایک ایسی کتاب کے اوراق پلٹنا ہے جس میں سیاست کے طوفان، تاریخ کے نشیب و فراز، اور فکر و قلم کی لطافتیں یکجا ہوں۔ وہ محض ایک کالم نگار نہیں، ایک فکری قافلہ سالار ہیں؛ محض ایک مصنف نہیں، بلکہ ایک فکری روایت کے امین ہیں؛ محض ایک سیاسی کارکن نہیں، بلکہ نظریاتی وفاداری اور فکری بصیرت کا استعارہ ہیں۔
قیوم نظامی کی زندگی کا آغاز 11 اپریل 1943 کو ایک ایسے گھرانے میں ہوا جہاں روحانیت اور علم کی روشنی ہم آہنگ تھی۔ اُن کے والد، عبد الحمید نظامی، نہ صرف اشاعتی دنیا کے ستون تھے بلکہ انہوں نے 1956 میں لاہور میں اسلامی پبلشنگ کمپنی اور نظامی پریس قائم کر کے علمی سرمائے کو محفوظ کرنے کی ایک عظیم روایت ڈالی۔ دادا، صوفی احمد دین، قرآن کی تلاوت اور علمائے دین کی محبت میں سرشار ایک صوفی منش انسان تھے۔ گویا قیوم نظامی کے رگ و پے میں مذہبی وراثت اور علمی شوق یکساں طور پر رواں تھے۔
تعلیم کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے، انہوں نے میٹرک عطامحمد اسلامیہ ہائی اسکول گوجرانوالہ سے پاس کیا، پھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں انٹرمیڈیٹ، گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن، اور پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے اردو حاصل ۔ پھر قانون کی تعلیم (ایل ایل بی) اور ایم اے پولیٹیکل سائنس نے اُن کے علمی سفر کو ایک ہمہ گیر وسعت دی۔ اس دوران انہیں ایسے اساتذہ میسر آئے جن کے نام خود ایک علمی تاریخ ہیں: ڈاکٹر سید عبداللہ، عبادت بریلوی، خواجہ محمد زکریا، وقار عظیم، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر نظر حسن، سجاد باقر رضوی۔ یہ سب شخصیات قیوم نظامی کی فکری اور ادبی تشکیل کے معمار ثابت ہوئیں۔
یونیورسٹی کی فضاؤں میں انہوں نے احمد رضا قصوری، ضیا شاہد، محمود شام، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی جیسے ہم عصر پائے، جبکہ ان کے احباب میں عطا الحق قاسمی، امجد اسلام امجد اور ڈاکٹر عبدالغنی فاروق جیسے نام شامل تھے۔ یہ محفلیں صرف دوستی کا رنگ نہیں رکھتی تھیں بلکہ علمی مباحث، ادبی تنقید، اور فکری سوالات کی گونج سے لبریز رہتی تھیں۔
قیوم نظامی کا سیاسی سفر 80 اور 90 کی دہائی کی بائیں بازو کی سیاست سے جڑا ہوا تھا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسے قائدین کے قریب رہے اور ملکی سیاست کے اہم موڑوں کے گواہ بھی اور شریکِ کار بھی۔ لیکن ان کا اصل ہتھیار بندوق نہیں، قلم تھا۔ ایک ایسے قلم کا جو تاریخ کو محض بیان نہیں کرتا بلکہ اس کا محاکمہ کرتا ہے۔ ان کے کالم ملک کے معتبر اردو اخبار میں چھپتے ہیں اور ان کا اسلوب روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔
ان کی تصنیفات ان کی فکری وسعت اور تنوع کا پتہ دیتی ہیں:
جرنیل اور سیاستدان،
تاریخ کی عدالت میں،
آزادی سے غلامی تک،
قائداعظم کا نظریہ ریاست،
پاکستان امریکہ بنتے بگڑتے تعلقات، جو دیکھا جو سنا،
شہادت سے شہادت تک،
جو دل پہ گزری،
معاملاتِ رسول،
معاملاتِ انسان اور قرآن،
مثالی اخلاقیات،
زندہ اقبال،
معاملاتِ عمر فاروق، اور
معاملاتِ حضرت علی۔
ہر کتاب میں تحقیق کی گہرائی اور فکر کی تازگی جھلکتی ہے۔
قیوم نظامی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ ماضی اور حال کے درمیان ایک فکری پل قائم کرتے ہیں۔ وہ تاریخ کے اوراق کو اس باریکی سے پڑھتے ہیں کہ اس میں سے حال کی راہیں تلاش کر لیتے ہیں، اور حال کی سیاست کو اس بصیرت سے دیکھتے ہیں کہ اس کے انجام کی جھلک پیش کر دیتے ہیں۔ اُن کے قلم میں مصلحت کی روایتی لغزش نہیں بلکہ صداقت کی وہ جرات ہے جو لکھنے والے کو امر کر دیتی ہے۔
یوں قیوم نظامی محض ایک فرد نہیں، ایک فکری عہد کا نام ہیں — ایک ایسا عہد جہاں علم و ادب، سیاست و فکر، مذہب و تاریخ سب ایک نقطے پر آ کر ملتے ہیں: صداقت اور بصیرت۔ ان کی زندگی اس بات کی مثال ہے کہ اگر قلم کو ایمان داری، علم، اور جرأت کے ساتھ برتا جائے تو وہ نہ صرف قاری کی آنکھ کھولتا ہے بلکہ تاریخ کا دھارا بھی بدل سکتا ہے ۔ میرا تعلق قیوم نظامی صاحب سے ربع صدی پر محیط ہے ان کی بسیط شخصیت اور وسعت نظر کا اظہار تحریک رحمت کے امیر خواجہ محمد