پاکستان کا تعلیمی نظام ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں اصلاح نہ کی گئی تو مستقبل کی نسلیں علم و ہنر کے میدان میں دنیا سے ہمیشہ کے لیے پیچھے رہ جائیں گی۔ ہمارے ہاں تعلیم کا سال تین سو پینسٹھ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن ان میں بمشکل ایک سو دس دن تدریسی سرگرمیوں کے ہوتے ہیں۔ باقی ایام کبھی طویل تعطیلات، کبھی امتحانات، کبھی ہڑتالوں اور کبھی جلسے جلوسوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جب نصاب کے لیے وقت ہی میسر نہ ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ طلبہ اتنا علم حاصل کر سکیں کہ ترقی یافتہ ممالک کے بچوں کا مقابلہ کر سکیں؟
اس صورتحال کو مزید سنگین بنانے والا پہلو نصاب کا فرسودہ پن ہے۔ ہمارے ہاں اب بھی وہی پرانی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں جنہیں دہائیوں پہلے ترتیب دیا گیا تھا۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، نئی ایجادات اور سائنسی ترقیات سامنے آ رہی ہیں، لیکن ہمارے نصاب میں یہ تبدیلیاں شامل ہی نہیں ہوتیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے طلبہ محض رٹے لگا کر امتحان پاس کرتے ہیں، لیکن عملی میدان میں ان کی قابلیت صفر کے برابر ہوتی ہے۔
اساتذہ کی کمی اور ان کی نااہلی بھی ایک بڑا المیہ ہے۔ پاکستان میں تقریباً 47 ہزار سے زائد اساتذہ کی کمی صرف پنجاب کے سرکاری اسکولوں میں پائی جاتی ہے۔ ملک کے بیشتر اسکولوں میں سائنس کے اساتذہ ہی دستیاب نہیں ہوتے۔ فزکس، کیمسٹری اور بایولوجی جیسے مضامین بغیر عملی تجربات اور تجربہ گاہ کے پڑھائے جاتے ہیں، جس سے بچوں کا سائنسی شعور دب جاتا ہے۔ کمپیوٹر لیب کے نام پر لاکھوں روپے فنڈز تو جاری کر دیے جاتے ہیں مگر عملی طور پر یہ لیب یا تو موجود ہی نہیں ہوتیں یا پھر پرانی مشینوں کا قبرستان بن جاتی ہیں۔ جہاں کمپیوٹر موجود ہوں بھی تو انہیں چلانے کے لیے نہ استاد ہوتا ہے اور نہ ہی بجلی کا مناسب انتظام۔ طلبہ کے لیے کمپیوٹر سیکھنا ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔
ان سب مسائل کی جڑ میں ایک بنیادی خرابی یہ بھی ہے کہ پاکستان میں تدریس کے لیے کوئی لائسنسنگ سسٹم موجود نہیں۔ دنیا بھر میں استاد بننے کے لیے ڈگری حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ امتحانات اور تربیت دی جاتی ہے، پھر انہیں لائسنس جاری کیا جاتا ہے تاکہ صرف وہی افراد پڑھا سکیں جو واقعی اس کے اہل ہیں۔ لیکن پاکستان میں کسی بھی شخص کو، خواہ اس نے تدریس کی تربیت لی ہو یا نہیں، استاد بنا دیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں تو صورتحال مزید ابتر ہے جہاں زیادہ تر خواتین اساتذہ میٹرک یا ایف اے پاس ہوتی ہیں۔ وہ کم تنخواہ پر محض اس لیے پڑھا رہی ہوتی ہیں کہ انہیں گھر کے قریب روزگار مل جائے، لیکن ان کی اپنی تعلیمی استعداد اس سطح کی نہیں ہوتی کہ وہ طلبہ کو جدید علوم یا تخلیقی صلاحیتیں سکھا سکیں۔ اس طرح معیاری تعلیم صرف ایک طبقے تک محدود رہ جاتی ہے جبکہ باقی بچے محض وقت گزاری کی تعلیم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
یہی طبقاتی فرق تعلیم کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ایک طرف نجی اسکولوں میں مہنگی فیسوں کے عوض بہتر سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں لیکن وہ بھی صرف مٹھی بھر افراد کے لیے۔ دوسری طرف سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، اساتذہ یا تو موجود نہیں ہوتے یا پھر تدریس میں دلچسپی نہیں لیتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم ایک ایسا میدان بن چکا ہے جہاں امیر کا بچہ آگے بڑھتا ہے اور غریب کا بچہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس عدم مساوات نے پورے معاشرے کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔
یونیسف کے مطابق پاکستان میں اس وقت 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں، جو دنیا میں دوسرا سب سے بڑا نمبر ہے۔ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی 2023ء رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب کے 35 فیصد اسکول پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، 40 فیصد اسکولوں میں بیت الخلا موجود نہیں اور 30 فیصد اسکولوں میں سائنس اور کمپیوٹر لیب سرے سے ہی نہیں ہیں۔ ایسی صورتحال میں بچوں سے عالمی معیار کی توقع رکھنا عبث ہے۔
اساتذہ کی تربیت کی طرف توجہ دینا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اگر پاکستان میں بھی اساتذہ کے لیے لائسنسنگ سسٹم متعارف کرا دیا جائے، جس کے تحت وہ امتحانات پاس کر کے اور تربیت حاصل کر کے پڑھانے کے اہل قرار پائیں، تو نہ صرف تعلیمی معیار بلند ہوگا بلکہ والدین کو بھی یقین ہوگا کہ ان کے بچوں کو اہل استاد پڑھا رہا ہے۔ اس کے بغیر یہ توقع رکھنا کہ پاکستان کا تعلیمی نظام بہتر ہو جائے گا، محض خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تعلیم پر سرمایہ کاری بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان اپنے بجٹ کا بمشکل 2 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پانچ سے سات فیصد تک تعلیم کے لیے مختص کرتے ہیں۔ جب بجٹ ہی کم ہوگا تو نہ اساتذہ کی تنخواہیں بہتر ہوں گی، نہ تربیت کا نظام بنے گا اور نہ ہی سائنس اور کمپیوٹر لیب قائم ہو سکیں گی۔ اسی لیے ہمارے بچے آج بھی جدید دنیا کی دوڑ میں پیچھے رہ رہے ہیں۔
اگر ہم واقعی پاکستان کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو تعلیم کو قومی ایمرجنسی قرار دینا ہوگا۔ تدریسی ایام بڑھا کر کم از کم دو سو پچاس کیے جائیں تاکہ نصاب مکمل ہو سکے۔ نصاب کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے، اساتذہ کے لیے لازمی لائسنسنگ سسٹم متعارف کرایا جائے، سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم کو عملی سطح پر یقینی بنایا جائے اور تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ جب تک یہ اقدامات نہیں کیے جاتے، تعلیم کا معیار بلند نہیں ہوگا اور ہمارے بچے دنیا کے بچوں سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں بن سکیں گے۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ اگر ہم نے آج اپنے تعلیمی نظام کی اصلاح نہ کی تو آنے والی نسلیں صرف ڈگری یافتہ بیروزگار بن کر رہ جائیں گی۔ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت ہے، اور اگر پاکستان