بچپن بھی عجیب ہی ہوتا ہے بچپن میں کعبے کی جانب پیر کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی،گھٹنے سے اوپر جسم ننگا نہیں رکھنا قابل سزا ہوتا تھا ۔کوئی بچی یا خاتون سر پر دوپٹہ نہ رکھے یا آذان کی آواز سن کر احتراما” اٹھ بیٹھنا اور خواتین کا سرپر دوپٹہ درست کرنا ضروری ہوتاتھا ۔آسمان کی جانب الٹا جوتا دیکھ لیتے تو کانپ اٹھتے اور دوڑ کر اسے سیدھا کر دیتے تھے ۔زمین پر پڑا یا گرا ہوا روٹی کا ٹکڑا دیکھتے تو اسے اٹھاتے کسی اونچی جگہ رکھ دیتے اور خدا سے معذرت کے لیے ایک بوسہ دیتے تھے ۔گلی میں پڑے کسی تحریری کاغذ یا قرآنی آیت ،اخبار کے تراشے کو اٹھا کر احتراما” کسی اونچی جگہ پر رکھ دینا ضروری ہوتا تھا ۔نماز کے وقت ریڈیو بند کرنا اور کمرے میں لگی تصاویر پر کپڑا ڈالنا فرض سمجھتے تھے ۔کھانے سے قبل ہاتھ دھونا سیدھے ہاتھ سے کھانا اور بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے پر سختی سے عمل کرنا پڑتا ۔گھر السلام علیکم کہے بغیر داخل ہونا گناہ اور چیزیں بانٹ کر کھانا تربیت کا حصہ ہوتا تھا ۔قرآن کی تعلیم اور نماز کی سختی زندگی کا مشکل لمحہ ہوتا تھا ۔ گھر سے باہر بتا کر جانا اور مغرب کے بعد گھر سے باہر رہنے کی اجازت نہ دینا ،آخر وہ کون سی معصوم اور پاکیزہ روحیں تھیں جنہیں ہم نے زندگی کی راہ میں کہیں کھو دیا ہے ؟ جن کا احترام ہمیں یہ سب کچھ کرنے پر مجبور کردیتاتھا ۔جی ہاں !۱یہ ہماری قوم کی مائیں تھیں اور یقینا” انہیں میں سے ایک میری ماں بھی تھی جسے بیس اگست ۱۹۹۷ءمیں ہم نے کھو دیا تھا۔ کہنے کو تو ماں تین الفاظ کا مجموعہ ہے لیکن اپنے اندر کل کائنات سموۓ ہوۓ ہے ۔کہتے ہیں کہ سب مائیں ایک سی ہوتی ہیں ۔شکل صورت ،رنگ ونسل ،زبان ولہجہ بےشک جدا جدا ہوتا ہے لیکن ماوں کی سوچ ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے اور وہ بچوں سے محبت کی سوچ ہوتی ہے جو انسانی نہیں بلکہ ایک خدائی وصف ہے ۔اسی لیے کوئی بھی لڑکی یا عورت جب ماں بنتی ہے تو صرف ماں کی تمام تر عظمتوںکی حامل ایک ایسی ماں بن کر رہ جاتی ہے جہاں جنت اس کے قدموں میں ڈھیر کردی جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ ماں کی اصل خوبصورتی تو اس کی محبت میں ہوتی ہے اور اس حساب سےشاید سب کو یہی لگتا ہے کہ میری ماں دنیا کی سب سے خوبصورت ترین ماں ہے ۔دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ ،سب سے خوبصورت لفظ ،سب سے حسین شے ،سب سے بڑی خوشی ،سب سے بڑی دولت ،سب سے بڑا سہارا ،سب سے بڑی دعا اور سب سے بڑی دوا ۔۔دنیا کہتی ہے کہ کہ ماں کی گود کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔یہ دنیا ماں سے شروع ہوتی ہے اور ماں پر ہی ختم ہوتی ہے کیونکہ محشر میں ہماری شناخت صرف ماں کے وجود سے قائم ہے۔اسی لیے ہمارے نبی ؐ نے ماں کی خدمت کو جہاد سے بھی افضل قرار دیا ہے ۔میری بڑی بہن زبدہ بتاتی ہے کہ بچپن میں ماں نے بہت سے چنے میری جھولی میں ڈال دئیے اور کہا تھوڑے تھوڑے سب بچوں کو بانٹ کر کھانا میں بچہ تھا سب بچوں کو تھوڑے تھوڑے چنے دیتا رہا یہاں تک کہ میری جھولی میں صرف چند چنے بچے تو ختم ہوتے دیکھ کر غصے سے وہ چنے بھی زمین پر پھینک دۓ اور رونے لگا تو ماں نے اپنے پلو سے بندھے چنے کھول کر میری جھولی میں ڈال دئیے اور کہنے لگیں مجھے پتہ تھا یہ ایسا ہی کرے گا اس لیے میں نے پہلے ہی کچھ چنے سنبھال کر اپنے پلو میں باندھ رکھے تھے۔ یقینا” وہ مجھے مل بانٹ کر کھانے کی تربیت دینا چاہتی تھیں ۔کہاں ہیں آج ایسی مائیں ؟جو اتنی موٹیوویشنل ہوں کہ بچوں کو زبان کی بجاۓ اپنے کردار اور عمل سے ذمہ داری کا احساس اور گھر کو اپنا سمجھنے ،پورے گھر کی اشیاء کی خبر رکھنا ،صبح جلدی اٹھنے،کچن اور کھانا پکانے ،بات کرنے کا سلیقہ سکھانے ، راز داری ،پردہ اور حیا کی تربیت ، وقت اور پیسوں کی اہمیت اور کفایت شعاری سکھانا ،رشتوں کی اہمیت اور احترام اور مہمان نوازی کا انداز ،صلح جوئی ،صبر و شکر اور برداشت کے ساتھ ساتھ دینی و مذہبی تربیت دیں۔
اپنی ماں کے بارے میں کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ وہ ماں تھی یا کوئی جن ۔۔ایک ایسی زندگی جو کبھی رکی نہیں ،جو ہم سب کو سلا کر سوتی اور ہم سب سے پہلے اٹھتی تھی ۔اس کے ہوتے ہوۓ ہم نو بچے کبھی اسکول سے لیٹ نہیں ہوتے تھے ۔ہمارے کوئلے کے آنگاروں کی استری سے پریس شدہ یونیفارم اسکول میں سب سے زیادہ صاف ہوتے ۔ہمارے بال بنے ہوۓ اور جوتے پالش شدہ ہوا کرتے تھے ۔صبح صبح بچوں کا صابن سے منہ ہاتھ دھلانا ، کوئلے کے منجن سے دانت صاف کرانا پھر شدید سردی میں باورچی خانے میں لکڑیوں کی آگ کے چولہے کے گرد بیٹھے بچوں کو پراٹھے پکا کر دینا پھر ایک ایک کو اسکول کےلیے خدا حافظ کرنا اور پھر دروازے سے دور تک جاتے ہوےدیکھتے رہنا ۔شام کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر بستر اور چارپیاں چھڑکاو کے بعد صحن میں نکالنا اور صبح واپس اندر رکھنا ان کا معمول تھا ۔ان کی پینسٹھ برس کی زندگی کا سفر ۔۔۔مگر ایک دن بھی ایسا نہیں ہوا جب ہماری ماں نے کام سے ہاتھ روک لیے ہوں ۔بےشک وہ ایک ان تھک ماں تھیں ،جو کبھی رکی نہیں ،کسی جن کی طرح ایک کام سے دوسرے کام تک دوڑتی رہتیں اور گھر کا ہر بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاۓ یہ سمجھتی تھیں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کوئی احسان نہیں ۔وہ نہ کسی پر بوجھ ڈالتی تھیں اور نہ کسی کو حقیر سمجھتی تھیں ۔چاہے کپڑوں کی سلائی ہو ، کپڑوں کی دھلائی ،صحن کی صفائی ہو ،چو لہے کی آنچ اور گرمی ہو یا بچوں کے اسکول کا خرچ پورا کرنا ہو ۔۔ہر کام خود کرتی تھیں اور اس میں کمال کی خوشی محسوس کرتیں ۔ان کے ہاتھوں میں محنت کی سختی مگر دل میں محبت کی نرمی تھی ۔وہ زندگی کی ضرورت کا ہر کام خود کرکے ہمیں یہ سبق دے گئیں کہ محنت عورت کو کمزور نہیں کرتی بلکہ عزت اور و قار دیتی ہے ۔ہم نے انہیں دیکھا کہ بیماری میں بھی کسی کا انتظار نہیں کرتیں ،سہارا نہیں ڈھونڈتیں بلکہ خود چل کر اپنی ہر ضرورت پوری کرتیں ۔جیسے زندگی سے یہ وعدہ کر رکھا ہو کہ جب تک سانس ہے ہاتھ رکے گا نہیں ۔میری طرح ہر فرد یہی سمجھتا ہے کہ بےشک میری ماں کے برابر کوئی نہیں ہے ۔
آج وہ نہیں ہیں مگر ان کی عادت ،وہ خوداداری ،وہ کام کی لگن ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔وہ ہمیں سکھا گئیں ہیں کہ عزت اور خوشی دوسروں سے لینے میں نہیں بلکہ دوسروں کو دینے میں پوشیدہ ہے ۔امی جان ۔۔۔آپ کی محنت اور محبت ہمارے گھروں کی اینٹ اینٹ میں بسی ہے ۔آپ کی برسی پر ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ آپ کو اس جنت میں جگہ دے جہاں کسی کو کام نہیں کرنا پڑتا مگر سب کو سکون ملتا ہے ۔جی ہاں ! یہ کسی عام خاتون کی نہیں بلکہ ایک ایسی ماں کی داستان ہے جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں ۔سب کے دکھ درد میں شریک رہتیں اور پورا محلہ ان کے حسن اخلاق اور محبت کا گرویدہ تھا ۔ پینسٹھ برس ۔۔۔وقت کا ایک طویل دریا ،مگر میری ماں نے یہ سفر یوں طے کیا جیسے روشنی اندھیروں کو کاٹتی ہے ۔وہ صرف ماں نہیں تھیں ،وہ دعا کی صورت ،رحمت کی شکل اورصبر کی جیتی جاگتی تفسیر تھیں ۔انہوں نے اپنی جوانی اولاد کی مسکراہٹ پر قربان کردی ۔اپنی نیندیں ہماری راحت کے لیے ،اپنے خواب ہمارے مستقبل کے لیے اور اپنی خواہشات ہماری ضرورتوں کے لیے وار دیں ۔ان کے لیے بس خوشی وہی تھی جو ہمارے چہروں پر دکھائی دے ۔دنیا کی چکا چوند میں وہ سادہ کپڑوں اورصاف دل کے ساتھ چلتی رہیں ۔وہ جانتی تھیں کہ اصل دولت دل کا سکون اور دعا کا سرمایہ ہے ۔وہ ہمیں باربار سکھاتیں کہ عزت رزق سے بڑی نعمت ہے اور صبر ہر دروازہ کھول دیتا ہے ۔ان کی گود میں ہم نے محبت کا پہلا مفہوم سیکھا ۔ان کے ہاتھوں میں ہمیں رزق نہیں ،دعاوں کی خوشبو ملتی تھی جو تھکن اور بیماری میں بھی کم نہ ہوتی تھی ۔
آج وہ نہیں ہیں مگران کی دعاوں کی چادر اب بھی ہمیں ڈھانپے ہوۓ ہے ۔گو ان کے ہاتھ اب ہمارے سر پر نہیں مگر ان کی شفقت کا احساس اور قربانیوں کا سایہ اب تک ہمارے ساتھ ساتھ ہے ۔وہ چلی گئیں مگر اپنی پینسٹھ سالہ زندگی میں ہمیں محبت ،ایثار اور ایمان کی وہ دولت دے گئیں جو وقت کے کسی طوفان سے ختم نہیں ہو سکتی ۔ امی جان ۔۔۔آپ ہمارے دلوں میں ایسے ہی ہمیشہ زندہ ہیں جیسے خوشبو پھول کے بغیر بھی رہتی ہے اور جیسے دعا فاصلے کے باوجود بھی پہنچ جاتی ہے ۔آئیں سب بہن بھائی مل کر ان کی درجات کی بلندی اور مغفرت کی دعا کریں ۔تاکہ قیامت میں جب ہمیں اپنی ماں کے نام سے پکارا جاۓ تو فخر کریں کہ ہم اس ماں کے بچے ہیں جو ہم سے پہلے ہی جنت میں ہماری منتظر ہے ۔