ہمارے ہاں بچہ جب پیدا ہوتا ہے، تو سب سے پہلے اُسے ماں لاڈ پیار دے کر بلوغت سے ہی محتاج بنا دیتی ہے اور جب تک وہ زندہ رہتا ہے؛ کھانے پینے کے معاملے میں ماں کے بعد بیوی اور گھر والوں کا محتاج رہتا ہے۔ حالاں کہ ہمیں اُسوہ حسنہ سے ایسا کوئی نمونہ نہیں ملتا کہ گھریلو کام کاج سے سرکار دو عالم نے پہلو تہی کی ہو۔ آپ نے تو ہمیشہ اپنے مُبارک ہاتھوں سے اپنے تمام امور سر انجام دیے، کپڑے کو پیوند، بکری کا دودھ دھونا، گھریلو کام کاج میں ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹانا، یہ سب ہمیں اپنے پیارے حبیبِ خدا کے مستقل عمل سے ملتا ہے۔
آج ہمارا رویہ دیکھنے کے لائق ہوتا ہے، ہمارے بچے، بڑے اور بوڑھے دن بھر گھروں میں پڑے والدہ، بیوی اور کبھی بہن پر انتہائی بدتمیزی کے ساتھ طرح طرح کے حکم چلا رہے ہوتے ہیں، کھانا کیوں صحیح نہیں بنا، باسی کیوں ہے، کپڑے کیوں نہیں دھوئے، استرے کیوں نہیں کیے وغیرہ؟ نہ نماز کی فکر، نہ کام کاج کی، بس عورتوں پر حکم چلاتے یہ مرد دراصل اپنی ناکامیوں کا جشن منا رہے ہوتے ہیں، ہم تو اس قدر ذہنی طور پر اپاہج اور نکمے ہیں کہ شادی بھی اس نیت سے کرتے ہیں کہ بیوی آئے گی اور گھریلو امور سنبھالے گی۔ اس ذہنی غلامی نے ہمیں نہ صرف محتاج بلکہ نسل در نسل ایک دوسرے کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج ہمارے مرد ہر بات پر حکم چلاتے، چیختے چلاتے ہیں لیکن خود پانی جیسی نعمت فریج سے نکال کر پینے کے لیے تیار نہیں ہوتے، زیادہ نہیں چائے جیسی چیز بنانی نہیں آتی تو گھر والوں کی غیر موجودگی میں ہوٹلوں کے محتاج بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان سے بڑے نکمے اور کام چور لوگ کہاں پائے جاتے ہوں گے؟
سوشل میڈیا پر بسا اوقات بڑے کام کی باتیں آجاتی ہے جیسا ایک تحریر کا خلاصہ ہے: جاپان وہ ملک ہے، جو دو ایٹمی بموں سے تہس نہس ہوا۔ اپنی خاک سے اٹھا بغیر کسی رحم یا امداد کی درخواست کیے۔ فخر، عزت اور اپنی ذات کے احترام کے ساتھ خود کو دوبارہ تعمیر کیا۔ تب سے، ایک بار بھی اس نے امریکہ سے بھیک نہیں مانگی۔
ایک ہندوستانی شخص جو جاپان میں ایک سال سے زیادہ رہا، ایک بات سے حیران رہ گیا۔ لوگ تو مؤدب، مددگار اور مہربان تھے، مگر کوئی بھی اسے اپنے گھر دعوت نہیں دیتا تھا۔ نہ چائے کے لیے، نہ کبھی کھانے پر، بالآخر، اس نے ایک جاپانی دوست سے پوچھا:
“کیوں؟” لمبے توقف کے بعد، دوست نے خاموش مگر پختہ لہجے میں کہا:
“ہمیں ہندوستانی تاریخ پڑھائی جاتی ہے، تحریک کے لیے؛ سبق کے لیے نہیں ، بلکہ ایک انتباہ کے طور پر۔ بھارتی:”انتباہ؟”
جاپانی دوست بولا:
“بتاؤ، آزادی سے پہلے کتنے برطانوی متحدہ ہندوستان پر حکومت کرتے تھے؟ شاید ایک لاکھ کے قریب؟ اور بھارت میں کتنے لوگ رہتے تھے؟ تین سو ملین سے زیادہ، ٹھیک ہے؟
تو پھر تمھارے لوگوں پر ظلم کس نے کیا؟ جو ہندوہستانی گولیوں سے بھونے گئے، جن ہندوہستانیوں کی پیٹھوں پر کوڑے مارے گئے۔ جنھیں ناقابل برداشت اذیتیں دی گئیں۔ یہ سب قہر ڈھانے والے فوجی برطانوی نہیں تھے۔۔ وہ تمھارے ہی اپنے ہندوستانی بھائی تھے۔
ایک بھی بندوق نہیں اُٹھائی، اپنے ہی ظالم کے خلاف۔ ایک بھی نہیں۔ تم غلامی کی بات کرتے ہو؟ اصل غلامی یہی تھی۔
جسم کی نہیں بلکہ ذہنی غلامی۔ تمھارے ہی بھائی تمھاری تکلیف کے اوزار بن گئے۔ تمھارے ہی لوگ تمھارے ہیروز کو دھوکا دے گئے۔ “تمھیں بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں، تمھارے اپنے ہی تمھیں دھوکہ دیتے ہیں۔ طاقت، عہدہ، ذاتی فائدے کے لیے۔ بار بار، صدیوں سے۔ اس لیے ہم فاصلے رکھتے ہیں۔”
جب برطانوی ہانگ کانگ یا سنگاپور آئے، وہاں کا کوئی مقامی فوج میں شامل نہیں ہوا۔ کیوں کہ وہ اپنے ہی لوگوں پر ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ لیکن بھارت میں، تم نہ صرف دشمن کے ساتھ شامل ہوئے، ان کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں، بدلے میں جاگیریں پائیں۔ “آج بھی، بھارتی یا پاکستانی نہیں بدلے” تھوڑی مفت بجلی، بدلے میں۔ ضمیر نام کی آواز، سب فروخت ہو جاتی ہے۔ تمھاری وفاداری تمھارے ملک کی نہیں، تمھارے پیٹ کی ہے۔”
“نعرے لگاؤ، ریلیاں نکالو۔ لیکن جب اصل معاملہ آتا ہے، جب ملک کو تمھارے کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ تم کہاں ہوتے ہو؟ ”تمہاری پہلی وفاداری تم خود، تمھارے خاندان، تمھارے مفاد کی ہے۔ باقی سب معاشرہ، مذہب، وغیرہ “اگر تمھارا ملک مضبوط نہیں، تو تمہارا گھر کبھی محفوظ نہیں ہوگا۔ اگر اشرافیہ کی جائیدادیں بیرون ممالک میں خریداری جارہی ہیں؛ اگر یہ خود اور ان کی اولاد بیرون ملک کے پاسپورٹ ہولڈر ہیں، تو کوئی پرچم تمھاری حفاظت نہیں کرے گا۔”
تمھارے ملکوں کو تقریروں میں زیادہ محب وطن نہیں چاہیے، اُنھیں ایسے شہری چاہیے؛ جن کے کردار ہلنے نہ پائیں۔” صرف پرچم ہاتھوں میں نہیں، وفاداری دلوں میں چاہیے۔ یہ تلخ حقیقت ہے۔ مگر سچ ہے اور سچ پہلا قدم ہے؛ تبدیلی کی طرف۔ آئیے عہد کریں زندگی کے کسی بھی معاملے میں کسی کے لیے محتاجی کا دروازہ نہیں کھولیں گے اور اس اپاہج سوچ شادی اس لیے ضروری ہے کہ بیوی بڑھاپے کا سہارا ہے اور اولاد اس لیے ضروری ہے کہ کل کام آئے گی، اس کی بجائے اپنے حصے کے تمام کام خود سر انجام دے کر، ان رشتوں کو اس نیت سے نبھائیں گے کہ زوجہ نیکیوں کو بڑھانے اور اولاد ملک و ملت کی خدمت کے لیے پیدا کریں گے تو شاید یہی سے مثبت تبدیلی کا آغاز ممکن ہوگا۔ اللہ ہمیں ہاتھ سے کمانے، خود پکا کر کھانے، خود دھو کر پہننے اور خود ہر کام کو سیکھ نمٹانے اور ہر قسم کی محتاجی اور غلامی سے بچائے۔ جو قومیں عورت اور اولاد کی غلامی سے نہیں نکل سکتی وہ ساری عمر ترقی نہیں کر سکتیں۔ اللہ ہمیں محنت سے کما کر اپنے ہاتھوں سے ہر کام نمٹانے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین