تحریر: صفد رعلی خاں
پنجاب کے کاشتکاروں کے سرپر طوفانی بارشوں کا خطرہ ٹلا ہے نہ ان سے بروقت گندم خریدنے کا حکومت کوئی بندوبست کرسکی ہے ۔گندم 3900روپےفی من اٹھانے کی کہانی بھی دم توڑ رہی ہے ۔گندم کے ضائع ہونے کے خدشات پر اونے پونے فروخت کا انکشاف بھی روح فرسا ہے کیونکہ میں خود بھی زمیندار ہوں اور مجھے کاشتکاروں کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے ،جس کرب کا کاشتکار سامنا کررہے ہیں اس کا اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں اور بیورو کریسی کے منہ زور اختیار رکھنے والے “بابوئوں “کو کچھ پتہ نہیں کیونکہ انہیں حقائق کا ادراک ہوتا تو فرضی سروے رپورٹس کی بنیاد پر ملینز ٹن کے حساب سے گندم درآمد ہرگز نہ کرتے اس وقت آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے کاشتکاروں کی اکثریت نے گندم کاشت کی خوراک میں خودکفالت کے ساتھ ملکی معیشت کو سہارا دینے میں پنجاب کے کاشتکاروں کا مرکزی کردار ہے ۔اب جبکہ پنجاب حکومت کے پاس بروقت گندم خریدنے کے لئے مطلوبہ رقم دستیاب نہیں تو اس نے مرکز سے قرض کی منظوری کیلئے رجوع کیا ہے جس پر تاحال خاموشی ہے ،پنجاب میں سرکاری نرخ پر گندم خریدنے کے لئے حکومت کے بینکوں سے رابطہ کرنے پر بھی مایوسی ہوئی ہے کیونکہ قبل ازیں گندم کی خریداری کیلئے جو نگران حکومت نے بینکوں سے قرض لیا تھا وہ واپس ہی نہیں کیا جاسکا ۔طوفانی بارشوں کے نئے الرٹ نے کاشتکاروں کے ہاتھوں سے سال بھر کی جمع پونجی کے پانی میں بہنے کے خطرات والی صورت بنا دی ہے ۔دوسری طرف کسان رہنماؤں اور عام کاشت کاروں کی رائے ہے کہ حکومت نے کسانوں کو مافیا اور ذخیرہ اندوزوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ان کے بقول حکومت کی پالیسیوں کا سب سے زیادہ نقصان کاشتکاروں کو ہو رہا ہے۔گندم کی کٹائی ہوچکی ،کسانوں کے پاس رکھنے کی جگہ نہیں اور حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری شروع ہوئی ہے نہ ہی اُس کا کوئی شیڈول سامنے آیا ہے۔حتی’ کہ باردانہ کی ترسیل کی کوئی صورت ہی نظر نہیں آتی ۔اس وقت ملک کی منڈیوں میں صرف ذخیرہ اندوز موجود ہیں جو کسان کی چھ ماہ کی فصل کی محنت کی قیمت 3000سے 3200روپے فی من کے حساب سے دے رہے ہیں اور اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔بوائی کے وقت گندم کے نرخ 5000 سے 5500 سو روپے فی من تک تھے۔ اس کی کاشت پر آنے والی لاگت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے لیکن اب کسان کو اِس کی سرکاری قیمت 3900 روپے فی من بھی نہیں مل رہی۔جب گندم کی فصل بوئی تھی تو اُس وقت ڈی اے پی کھاد کی فی بوری کی قیمت 13 ہزار روپے اور یوریا کھاد کی قیمت کم از کم پانچ ہزار روپے تھی۔گندم کی فصل کو تین سے چار پانی لگائے جاتے ہیں اور ایک پانی کا فی ایکٹر خرچہ چار سے پانچ ہزار روپے ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ زمین کی تیاری پر 15 سے 20 ہزار روپے فی ایکڑ اخراجات آتے ہیں۔گندم سمیت کسی بھی فصل کو بیچتے وقت کسان کو نقصان ہوتا ہے جس پر کوئی بھی حکومت عملی طور پر انکے ازالے کیلئے کچھ نہیں کرتی۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس وقت محکمۂ خوراک پنجاب کے پاس 23 لاکھ میٹرک ٹن گندم موجود ہے جس کی وجہ سے نئی خریداری میں تاخیر کی جا رہی ہے۔سرکاری طور پر خریداری میں تاخیر پر ذخیرہ اندوزوں کی موجیں ہوگئی ہیں وہ کاشتکاروں کو حالات سے خوفزدہ کرکے اونے پونے گندم خرید رہے ہیں ۔پالئسی سازوں نے حالات وواقعات کا بنظر غائر جائزہ ہی نہیں لیا ورنہ حالات اس قدر سنگین نہ ہوتے یہ نہیں دیکھا گیا کہ
رواں سال صوبہ پنجاب میں ایک کروڑ 74 لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کی فصل اگائی گئی ہے جو گزشتہ سال سے 12 لاکھ ایکڑ زیادہ ہے۔دوسرا نگراں حکومت نے غلط وقت پر زیادہ گندم درآمد کی جس کے باعث حکومت کے پاس گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں۔اس بات پر بھی دھیان نہیں دیا گیا کہ ہر سال کی طرح اب پھر تقریباً 10 فی صد سے زیادہ گندم منڈیوں میں ترسیل کے باعث ضائع ہورہی ہے۔آخر میں اہل اختیار سے میرا سوال ہے کہ سرکاری محکموں کی غفلت ،بے ضابطگیوں اور پالیسی سازوں کی لاپروائی پر سارا نقصان صرف کاشتکاروں کو ہی کیوں اٹھانا پڑتا ہے ؟ ۔غلط پالیساں بنانے والوں کا احتساب ہو پائے گا؟ حکومت اس پر کب توجہ دیگی ؟.