تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
ہمیشہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر ہی قانون سازی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کے اپنے قوانین و ضوابط ہیں۔ دنیا میں اس وقت سب سے بہتر جمہوری نظام حکومت ہی تصور کیا جاتا ہے اور اس میں عوام کے منتخب شدہ نمائندگان اپنے اپنے علاقائی حالات وواقعات کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کے عمل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر علاقے کا کلچر، ثقافت، معاشرت، وسائل، زمینی حقائق، مسائل غرض کہ لوگوں کی سوچ بھی ایک جیسی نہیں ہوتی ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر ہی شاید دین متین مکمل کرکے بھی اجتہاد، قیاس اور اجماع کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ویسے بھی ارتقائی عمل کے تحت سدا معاملات ایک جیسے نہیں رہتے ہیں۔ بدلتے حالات کو مدنظر رکھ کر ہی ضوابط کی تجدید کی جاتی ہے۔ نئے نئے نظام وضع کئے جاتے ہیں۔ پرانے اداروں کی تنظیم نو کی جاتی ہے اور حسب ضرورت نئے ادارے بھی بنائے جاتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قوانین ضوابط، نظام اور ادارے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ہی بنائے جاتے ہیں۔ رول آف لاء کا بنیادی مقصد بھی ہر چیز کو اس کے مدار میں رکھنا ہوتا ہے تاکہ مزاحمت، تصادم اور خانہ جنگی کے امکان کا خاتمہ کیا جائے اور امن وامان قائم کرکے شہریوں کو زندگی گزارنے کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔ اس میں آزاد معاشرے کا قیام بھی ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان کو یقینی بنانا بھی ہے۔ تعلیم وتربیت کا مناسب انتظام کرنا۔ جرائم کی بیخ کنی کر کے قانون کی بالادستی قائم کرنا ۔ فنانشل مینیجمنٹ تاکہ وسائل کی نشاندہی اور مسائل کے خاتمے کے لئے درست سمت میں منصوبہ سازی کرنا۔ اداروں کاقیام اور ان کے فعال کردار کو یقینی بنانا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارا کچھ کرنے کے بعد بھی اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنا ہوگاکہ قانون سازی ایک مسلسل عمل ہے اور ایڈہاک ازم اس سارے عمل کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ جن جن ممالک نے ایڈہاک ازم سے جان چھڑا لی ہے وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں بصورت دیگر افراتفری، ہلچل، شورشرابہ، بدنیتی،بددیانتی،الزام تراشی، جیب تراشی، شب باشی،مایوسی اور کیا کیا نہیں۔ آنکھوں نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے اور ویسے ہم نے شعری حسن کے تحت کاسہ توڑ دیا ہے۔
قیام پاکستان کے فوری بعد اپنوں اور غیروں نے مل کر اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر ہماری سرزمین پر کھل کھلا کر کھیلنا شروع کردیا اور آخری خبریں آنے تک یہ کھیل تاحال جاری تھا اور ہم سب اس خوبصورت کھیل تماشے سے بہرہ ور ہورہے تھے۔ ویسے ہم سب گونگے اور بہرے ہیں۔ آگے آگے دیکھتے ہیں مسکراتے ہیں، سر جھکاتے ہیں اور حصہ بقدر جثہ پیتے اور کھاتے ہیں اور پھر ہر نئی صورتحال پر پہلے مایوس ہوتے ہیں اور آنے والے وقت کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ کاش انتظار کی گھڑیاں ختم ہو جاتیں۔ ویسے تو موبائل اور نیٹ کے آنے سے گھڑیاں ختم ہو گئی ہیں اور جو گھڑی بچ گئی ہے اس کو استعمال کرنے کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ ہم بہت جلدی میں ہیں اور ہمیں جلدی جلدی فیصلے کرنا ہونگے اور فیصلوں پر عملدرآمد کرنےکے لئے بھی ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ وقت بھی کیا چیز ہے اس کی اہمیت کے پیش نظر کہا جاتا ہے کہ اس کی قدر کرنا سیکھو نہیں تو ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھو گے تو جل جائے گا۔ ویسے ہم نے بڑا ہی وقت ضائع کیا ہے۔ خود فریبی، خود نمائی اور ذاتیات جیسی بیماریوں میں ہم مبتلا ہو گئے اور بدقسمتی سے صحیح تشخیص کرنے والا معالج 11ستمبر 1948 کو فوت ہو گیا اور باقی معالجین آتے جاتے رہے اور “ٹیکہ پڑی” سے کام چلاتے رہے۔ لیکن اب مریض کی حالت بہت ہی خراب ہو گئی ہے۔ بڑے تحمل اور برداشت کی ضرورت ہے لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ہے کہ کسی پریشانی پر پریشان ہوجانا ایک نئی پریشانی کو جنم دیتا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے مریض کے مرض کو جاننے کی ضرورت ہے اور پھر اخلاص سے اس کے لئے دعا اور دوا کی ضرورت ہے۔ محض دعاؤں سے بات نہیں بنے گی دوا کا خالص ہونا بھی شرط ہے ورنہ ردعمل کے نتائج بھی بھیانک ہوتے ہیں
آئیے تشخیص پر توجہ دیتے ہیں۔ ہماری آبادی ناقابل یقین حد تک بڑھ گئی ہے۔ ہماری شاہ خرچیوں نے شاہوں کو گدا بنا دیا ہے۔ ہمارے وسائل تاحال پوشیدہ ہیں اور کچھ وسائل بے دریغ استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ہمارے قوانین پر عملدرآمد سیاسی اور دیگر مصلحتوں کا مرہون منت ہو چکا ہے۔ ہمارے سارے ادارے عوام کی توقعات پر پورے نہیں اتر رہے ہیں اور ہم نئے اداروں پر ادارے بنا کر انقلاب لانا چاہتے ہیں ویسے ہم نے اداروں کو افرادی قوت سے مالامال کردیا ہے اور اب ہمارے پاس نایاب مال برائے فروخت موجود ہے اور گاہک کو کانوں کان خبر نہیں ہے۔ ہمارے دشمن ہمارے راستے میں چوکڑی مار کر بیٹھے ہیں اور وہ ہم پر ہر طرف سے وار کررہے ہیں اور ہم ایک دوسرے پر حملے کررہے ہیں۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہے اور ہم محفوظ و مامون ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے۔ تاہم مہنگائی نے ہماری مت مار دی ہے اور ہم نے بھی کاروبار حیات میں انفرادی طور پر خوب پیسہ کمایا ہے اور کوئی بھی پیچھے نہیں رہا ہے اور اسی لئے ہم نے سارا کچھ “ایدر اودر” چھپا لیا ہے۔ اللہ میاں ہمارے پردے رکھے گا ویسے تو ایف بی آر بھی متحرک ہوگیا ہے اب دیکھتے ہیں جیت کس کے حصے میں آتی ہے۔ سارے اپنے ہیں اس لئے ہمیں غیروں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے میڈیا پر چھا چھو گئے ہیں اور اس طرح چور اچکے سارے ویسے ہی ڈر گئے ہیں۔ قانون نافذ کرنے کا مقصد بھی تو خوف پیدا کرنا ہوتا ہے اور خوف اور خوف و ہراس میں فرق کرنا تاحال باقی ہے۔ دھرتی ہماری ماں ہے اور وہ شدت بیماری کی بدولت اب لاغر ہو چکی ہے۔ بھائی اور بہن اب جائیداد کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آچکے ہیں اور عدالت کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ ہر شخص کے پیٹ میں درد ہے اور وہ پھکی لینے کی بجائے چیخنے پر یقین رکھتا ہے اس کے مرض کو بھی جاننے کی ضرورت ہے اور اس کا پکا پیڈا علاج کرنے کی تو بہت ہی ضرورت ہے
ہمارے پاس بے شمار ادارے ہیں بلکہ وافر مقدار میں ادارے ہیں قوانین کی کتابوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ ایک ہی مقصد کے لئے کئی کئی قوانین ہیں اور کچھ قوانین بنا کر ان کے بارے میں تو ہم ویسے ہی بھول گئے ہیں۔ ان قوانین کو نافذ کرنے والے اداروں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے اور یہ فہرست مزید لمبی ہونے کا بھی قوی امکان ہے۔ خود مختار فعال عدالتی نظام کام کررہا ہے اور کسی وقت بھی حاکم وقت بنام وغیرہ میں طلب کرکے انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکتے ہیں۔ یہ سارا کچھ ہے لیکن پھر بھی بے چینی اور غیریقینی ہے۔ لا محالہ کچھ نہ کچھ تو ہے۔ بادی النظر میں اصل مسئلہ قانون کے نافذ العمل ہونے کا ہے اور اس سے بڑھ کر بھی یہ کہ اس قانون کا اپنے اوپر نافذ العمل کرنے کا مسئلہ ہے۔ پنجاب حکومت نے حال ہی میں پنجاب انفورسمنٹ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ انفورسمنٹ ہی ہمارا اصل مسئلہ ہے اس لحاظ سے مذکورہ اتھارٹی کے قیام کا اعلان پنجاب حکومت کا خوش آئند فیصلہ ہے۔ تاہم مصلحتوں کے شکنجوں کو توڑنا ہوگا اور حکومتی رٹ کو مبنی بر اخلاص اور مبنی بر انصاف یقینی بنانا ہوگا