تحریر: مہوش فضل
کشمیر ایک لفظ نہیں ہے ایک نام نہیں ہے ایک ریاست بھی نہیں ہے۔۔۔ کشمیر ایک وادی ہے کشمیر جسے لکھنے والے وادی جنت نظیر لکھتے ہیں۔
خون سے جب کسی کی تاریخ لکھی جائے گی تو وہ ہوگا کشمیر
جان کے نذرانے جس کے لیے دئیے جائیں گے وہ ہو گا کشمیر
اپنے جگر گوشوں کو جس پر قربان کیا جائے گا وہ ہو گا کشمیر
لہو کی بوندھوں سے لکھی جائے گی ایک ہی تحریربس ہمارا ہے کشمیر
کشمیر کسی کا نہیں ہے کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے اور انہیں کا رہے گا۔۔ یہ بات آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئی اور نہ ہی آئے گی کہ کشمیر کی عوام کیا چاہتی ہے۔۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک نظر کشمیر کی تاریخ کی طرف بھی کر لیتے ہیں۔۔
پندرہویں صدی کے دور اول میں کشمیر کو سلطان زین العابدینؒ جیسا نیک دل، بادشاہ نصیب ہوا جس نے عدل، تدبر، رحم دلی اور اسلامی اخوت و مساوات کے جذبہ سے ریاست میں اسلام کی بنیادوں کو مستحکم کیا سلطان زین العابدینؒ کا دور کشمیر کی اسلامی تاریخ کابہترین دور شمار ہوتا ہے۔
1585ء میں مغل فرمانروا جلال الدین اکبر نے کشمیر کو فتح کیا اور اس طرح کشمیر شاہمیری خاندان کے ہاتھوں سے نکل کر مغل خاندان کے تسلط میں آگیا۔
سلطان محی الدین اورنگزیب عالمگیرکے وصال کے بعد جب سلطنت مغلیہ زوال پذیر ہوئی، مغل شاہزدوں کی باہمی چپقلش کے باعث طوائف الملوکی کا دور دورہ شروع ہوا اور ریاستیں خودمختار ہونے لگیں تو کشمیر پر افغانوں کا تسلط قائم ہوگیا اور اس طرح ۱۷۵۳ء میں کشمیر پر مغل اقتدار کا سورج غروب ہوا۔
1819ء میں رنجیت سنگھ مہاراجہ پنجاب کے ایک لشکر نے مصرو دیوان چند کی قیادت میں راجوری کے راستہ کشمیر پر حملہ کیا اور کشمیر کے حاکم جبار خان کو شکست دے کر سکھ اقتدار کا علم بلند کر دیا۔
1842ء میں پنجاب فرنگی حکومت کے زیر نگین آگیا۔ سکھوں اور انگریزوں کی اس جنگ میں کشمیر کے گلاب سنگھ نے انگریزوں کے ساتھ تعاون کیا جس کے نتیجہ میں انگریزوں نے 12مارچ 1842ء کو ’’معاہدۂ امرتسر‘‘ کے ذریعہ 85لاکھ روپے نقد کے علاوہ ایک گھوڑے، 16 بکریوں اور چھ جوڑے شال پر مشتمل سالانہ خراج کے عوض ریاست جموں و کشمیر مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس طرح کشمیر ڈوگرہ شاہی کے خونیں پنجوں میں جکڑ لیا گیا۔
ڈوگروں نے مسلمانوں کو ستانے اور ان پر ظلم ڈھانے میں پہلے ریکارڈ بھی توڑ دیے۔ ڈوگرہ مظالم اور جبر و تشدد کا یہ دور کشمیر کی تاریخ کا تاریک ترین اور اندوہناک باب ہے۔ بیشتر مسلمان ان مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے ہجرت کرتے رہے، وقتاً فوقتاً مزاحمت کی تحریکیں اٹھتی رہیں، لیکن ڈوگرہ شاہی کو چونکہ دولت برطانیہ کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اس لیے ڈوگرہ مظالم میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا چلا گیا۔
1931ء میں ڈوگرہ ظلم و ستم کے باعث ایک مسلمان کی شہادت کے بعد مدتوں سے سینوں میں پکنے والا لاوا پھٹ پڑا، پوری ریاست میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے، اہل کشمیر کی اس مظلومیت کو دیکھتے ہوئے انڈیا کی سیاسی جماعتوں نے بھی اس طرف توجہ دی۔
1947ء میں جب برصغیر تقسیم ہوا تو ریاستوں کو اس بات کی آزادی تھی کہ وہ انڈیا یا پاکستان میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کرلیں۔ کشمیر کو مسلم اکثریت کی بنا پر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے تھا لیکن ایک بار پھر سازشیں کامیاب ہوئی،
لیکن کشمیریوں نے ہمت نہ ہاری اور پونچھ کے نوجوانوں نے ڈوگرہ سامراج کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ پیر علی اصغر شاہ صاحب امیر المجاہدین اور سردار عبد القیوم خان نے جنگ آزادی کی قیادت کی۔ باغ، راولاکوٹ، نیلا پٹ، ہڈا باڑی، نانگا پہاڑ، آندھیری، سوہاوہ اور دیگر مقامات پر مجاہدین آزادی نے بے سروسامانی کے باوجود ڈوگرہ فوج کو شکست دی۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی فوج اور قبائلی مجاہدین نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا اور کم و بیش سوا سال کی جنگ آزادی کے نتیجہ میں مظفر آباد، پونچھ اور میرپور کے اضلاع ڈوگرہ سامراج سے آزاد کرا لیے گئے۔ جن پر آزاد جموں و کشمیر کی حکومت سردار محمد ابراہیم کی صدارت میں قائم کی گئی۔
کئی ہزاروں سالہ طویل تاریخ کے حامل اس خوبصورت خطے نے تاریخ کے ان گنت اتار چڑھاؤ دیکھے۔ مقامی افراد نے احسن طریقے سے اس کا انتظام سنبھالا۔کئی بیرونی سازشیں ہوئی اور برسوں تک یہاں کے مقامی باشندوں کی زندگی اجیرن رہی ۔
اس سب کے باوجود کشمیر ہر دور میں اپنی ایک مخصوص تہذیب اور ثقافت کے ساتھ تاریخ کے صفحات میں زندہ رہا۔ یہاں کے لوگوں نے اس قدر مظالم ،ناختم ہونے والے المیوں اور مسلسل جبر کے ماحول میں بھی اپنے حواس نہیں کھوئے ۔ انہوں نے اپنی اقدار ، ادب ،موسیقی اور آرٹ کبھی نہیں کھویا۔
اب بہت سے ملکوں میں سفر کرنے کے لیے سرحدوں کی غیر ضروری بندشوں کو ختم کیا جاچکا ہے لیکن 76 برس سے ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے خطۂ کشمیر کے باسی جبر کی طویل سیاہ رات کے چھٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
گزشتہ دہائیوں میں ریاست جموں وکشمیر کے باسیوں نے آزادی کی صبح دیکھنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے۔ سیاسی جد وجہد سے ابتداء ہوئی۔ سلسلہ دو چار آوازوں سے شروع ہوتے ہی آگے چل کر قافلے کی شکل اختیار کر گیا۔ جب سیاسی جد وجہد کارگرہوتی دکھائی نہ دی تو یہاں کے باشندوں نے اپنے گھائل جسموں کی ساری بچی کھچی توانائیاں استعمال کی مسلح مزاحمت کی کوششیں شروع ہوئی اور ظلم کی قوتوں کے ساتھ ٹکراتے رہے، کٹتے رہے اور گرتے رہے کئی جگر گوشوں کی قربانیاں دی ، برہان وانی نے اپنی جان کی قربانی دے کر ایک نئی تحریک چلائی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ آزادی شروع کی جس نے کشمیر کے ہر بچے بوڑھے کے خون کو گرما دیامگر آج تک ان کا وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا ۔