کہانی لوگ : چھَلّا

تحریر: حیدر قریشی (جرمنی)

خان پور میں ہمارے گھر کے دائیں بائیں دو ویہڑے تھے۔ایک سیال فیملی کا ویہڑہ اور ایک موہانڑاں فیملی کا ویہڑہ۔۔۔۔سیال فیملی کا تھوڑا بہت ذکر میری یادوں میں آچکا ہے لیکن موہانڑاں فیملی کا ذکر نہیں آیا۔موہانڑاں(ملاح اور مچھیرے)فیملی میں بابا جی کے ایک دو شاگرد تھے۔اباجی نے اس فیملی کے دو بندوں کو شوگر مل کے ایک چھوٹے سے ٹھیکے میں کام دیا تھا۔محلے داری کے حساب سے اس ویہڑے کی بڑی عمر کی خواتین سے امی جی کا ملنا جلنا تھا۔اسی محلے داری کے نتیجہ میں مبارکہ کا بھی وہاں آنا جانا ہوا۔ویسے تو ساری ملنے والیاں ہی اچھی تھیں لیکن ان میں سے تین تو مبارکہ کی بہترین سہیلیاں بن گئی تھیں۔یہ تین کزنز تھیں۔حسینہ،زینو اور چھلا۔۔۔اسی ویہڑے میں میرے دو خاص دوست تھے۔ خلیل اورمحمد امین۔خلیل سے میری اچھی دوستی تھی اور اس کی بیوی حسینہ ،مبارکہ کی سب سے بہترین دوست تھی۔امین آٹھویں تک میرا کلاس فیلوبھی تھا۔بہر حال خان پور میں قیام کے دوران1982تک ان سارے لوگوں سے اور سارے ویہڑے سے میل جول رہا۔ چند دن پہلے خان پور سے مرزا حبیب نے کسی نوجوان شفیق تبسم کی تصویر بھیجی کہ یہ آپ کے پرانے ہمسائے ہیں۔مزیدبتایا کہ خان پور کے معروف سرائیکی اداکار ہیں اور یہ مجھے جانتے ہیں۔پھر ان سے رابطہ ہوا تو ہمسائے میں موجود پورا موہانڑاں ویہڑہ روشن ہو گیا۔شفیق میرے چھوٹے بھائیوں نوید اور اعجاز کے دوست تھے اور بچپن میں پی ٹی وی کے ایک مقبول ڈرامے کی ایکٹنگ مل کر کیا کرتے تھے۔شفیق نے ہی یاد دلایا کہ ایک بار ہمارے گھر میں پتلی تماشا کرنے والوں کو بلایا گیا تو محلے کے بچوں کا ہجوم جمع ہو گیا،شفیق بھی ان میں شامل تھا۔شفیق کے ذریعے شاید مجھے بہت ساری پرانی یادیں تازہ کرنے کا موقعہ مل جائے۔ تاہم فی الحال میں موہانڑاں فیلمی کے چھلے کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں لیکن چھلے سے پہلے شمشاد اور شادو کا ذکرکرنا چاہوں گا۔ شمشاد چھوٹی سی بچی تھی۔بہت ہی کم عمری میں اس کی نسبت بِٹے سے طے کر دی گئی۔بِٹا اپنے بے ہنگم ڈیل ڈول،بڑی عمر،بھدے نین نقش اور رنگت، ہر لحاظ سے بہت زیادہ قابلِ رحم تھا،آٹھ نو سال کی چھوٹی سی بچی نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا۔اس احتجاج کا ایک منظر میں نے بھی دیکھا تھا ۔موہانڑوں والی گلی کے ہلکے سے پیچ و خم کے ایک سرے پر ننھی سی شمشاد دیوار کی اوٹ میں کھڑی تھی۔دوسری طرف بِٹا نظر آیا تو پورا ہاتھ کھول کر لخ لعنت والا پوز بنا کر کہنے لگی ہیٹ ای بِٹا ٹِٹا ۔۔ہیٹ ای (hate ie Bitta Titta..hate ie.. ) یہ افسوس ناک بھی تھا لیکن یہ اتنا مزے دار منظر تھا کہ آج تک جزئیات سمیت مجھے یاد ہے اور اسے سوچتے ہوئے ہمیشہ ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔اس کے باوجود بچی بے چاری کو بِٹے سے بیاہ دیا گیا۔شمشاد نے بچپن میں ہی سماجی ظلم کے خلاف جو علم بلند کیا تھا،شادی کے بعد بھی اسے اٹھائے رکھا،یوں اس یکسربے جوڑ شادی سے نجات حاصل کرکے نیا گھر بسانے میں کامیاب ہو گئی۔شمشاد کی بہن شادو مزاجا بالکل مختلف تھی،اس کی شادی چھلے سے ہوئی۔اور اس نے زندگی کی ساری خواہشات کو تج کر اپنی زندگی پوری وفا داری سے چھلے کے ساتھ گزاردی۔ شروع میں حسینہ اور زینو کے ساتھ چھلے کا ذکر کرچکا ہوں۔دراصل چھلا ٹرانس جینڈر تھا۔بظاہر خوبصورت سا بچہ تھا لیکن لڑکا دِکھنے کے باوجود لڑکیوں جیسانازک تھا۔ہمارے گھر میں چھلے کا آنا جانا ایسے ہی تھا جیسے حسینہ اور زینو کا۔اسی لئے میں نے ان تینوں کو مبارکہ کی سہیلیاں لکھا ہے۔چھلے نے شادی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ہمارے معاشرتی رسوم و رواج کے مطابق اسے شادی کرنا پڑی۔شادی کے بعد چھلے کو اپنے دکھ سکھ سنانے کے لئے حسینہ یا زینو سے بات کرنا تو ممکن نہ تھا لیکن اسے تھوڑا بہت مبارکہ کا سہارا ملا ہوا تھا۔شادو کو فیملی کی بعض خواتین نے چند مفید مشورے دیئے، چند ترکیبیں سمجھائیں۔اس بے چاری نے ان پر کچھ عمل کرنے کی کوشش کی تو چھلابھڑکگیا۔اس نے مبارکہ سے آکر رو رو کر شکایت کی کہ میری بیوی میرے ساتھ ایسی گندی باتیںاور ایسی گندی حرکتیں کرنے لگی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بعض لوگ شرم و حیا اور عفت و عصمت کے مثالی تصورات میںواقعی غیرمعمولی حد تکحساس ہوتے ہیں ۔چھلا بھی اخلاقیات کے ایسے ہی تصور کی تصویر تھا۔دوسری طرف قدرت نے اسے اس صلاحیت سے ہی یکسر محروم رکھا تھاجو ازدواجی زندگی کے لئے ضروری ہوتی ہے۔بہر حال زندگی کی گاڑی جیسے تیسے چلنے لگی۔شمشاد نے بے جوڑ شادی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرکے اپنے ماحول میں ایک مثالی کردار ادا کیا تو شادو نے بے لوث قربانی دے کر،اپنی خواہشوں کو مار کراور چھلے کا ساتھ نبھاکر وفا کا ایک مثالی نمونہ پیش کیا ہے۔ویسے چھلا اتنا خوبرو تھا کہ شادو اسے کسی دیوتا کی طرح دیکھ دیکھ کر ہی جی سکتی تھی اور اس نے ایسا ہی کیا ۔ہم لوگوں کے خان پور سے شفٹ ہوجانے کے کچھ عرصہ کے بعد چھلا سعودی عرب چلا گیا تھا۔وہاں اس نے شادو کو بلوا کر حج بھی کروایا۔شادو اس سعادت پر آج بھی بے حد خوش ہے۔ چھلے کے والدین اس لحاظ سے مثالی والدین تھے کہ انہوں نے چھلے کو اچھے سے سنبھالا، اسے ٹرانس جینڈرز کے روایتی پاکستانی قبیلے میں جا کر ضائع ہو جانے سے بچایا۔اسے پوری طرح خاندان کے ساتھ جوڑ کر رکھا اور خاندان کے ذریعے اپنیمعاشرے کامفید حصہ بنایا۔ چھلے کے ماں باپ قسمت کی ستم ظریفی کے باوجود چھلے کی پرورش اور تربیت کے معاملے میں نہایت کامیاب والدین تھے۔شفیق بتا رہا تھا کہ حسینہ،زینوِ، امین اور چھلا فوت ہو گئے ہیں۔چھلا تو ابھی فروری میں فوت ہوا ہے۔سب فوت شدگان کا افسوس ہے لیکن میں چھلے کی وفات کی خبر سے بہت زیادہ افسردہ ہوں۔ امیتابھ بچن کی فلم میجرصاحب کا مشہور گیت ہے(سونا سونا)میرے نچدی دے کھل گئے وال بھابو میری گت کر دے یہ سارا گیت پنجابی فوک پر مبنی ہے۔اس گیت کے اندر ایک اور پنجابی لوک گیت چھلا کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے،جس نے گیت کو دو آتشہ کر دیا ہے۔دوسرے بند میں اس لوک گیت کے یہ بول اس وقت سن رہا ہوں۔چھلا نو نو تھیویپتر مِٹھے میوے۔۔اللہ سب نوں دیویگل سن چھلیا ڈھولا او تیتھوں کاہدا اولا (بیٹے میٹھے میوے جیسے ہوتے ہیں،اللہ سب کو عطا کرے۔میرے محبوب چھلے! میری بات سنو، تم سے کون سا کسی بات کا کوئی پردہ ہے)میں گیت کا یہ حصہ بار بار سن رہا ہوں اورمجھے لگتا ہے چھلے کے ماں باپ دونوں کے آنسو میری آنکھوں میں بھرتے جا رہے ہیں۔لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ چھلے کی پیدائش پر رو رہے ہیںیاوفات پر رو رہے ہیں ؟ یا شاید پیدائش اور وفات دونوں پر رو رہے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment