صدا بصحرا
رفیع صحراٸی
سی سی ڈی اور کچے کے ڈاکو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سی سی ڈی نے پنجاب میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کامیاب اور مؤثر کارروائیوں کے ذریعے نہ صرف اپنی دھاک بٹھا دی ہے بلکہ گزشتہ دو ماہ کے دوران پنجاب میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی ہو گئی ہے۔ جرائم پیشہ افراد آگے آگے اور سی سی ڈی ان کے پیچھے پیچھے ہے۔ بہت عرصے بعد پنجاب کی عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
سی سی ڈی کی پیشہ ورانہ کامیابیوں کے بعد یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ اگر کچے کے ڈاکوؤں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے تو ان کے خلاف سی سی ڈی کو میدان میں اتارنا ہو گا۔ اس کے لیے پنجاب کے علاوہ سندھ حکومت کی طرف سے بھی سی سی ڈی کو خصوصی اختیارات دینے کی ضرورت ہو گی تاکہ کچے کے ڈاکوؤں کے سرپرست پکے کے ڈاکو بھی گرفت میں لائے جا سکیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال مارچ میں کچے کے ڈاکوٶں کے خلاف گرینڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ صدرِ پاکستان نے اس آپریشن کی باقاعدہ منظوری دے دی تھی۔ آئی جی پولیس پنجاب نے کچے کے علاقے کی صورتِ حال پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوٸے بتایا تھا کہ اس آپریشن میں 11 ہزار پولیس اہل کار حصہ لیں گے۔ پتا چلا تھا کہ ڈاکوؤں کے خلاف گرینڈ آپریشن کی کمانڈ پاک فوج کرے گی۔ مگر جانے کیا وجہ ہوئی کہ پاک فوج اور پولیس کا وہ مشترکہ گرینڈ آپریشن شروع نہ ہو سکا۔
پولیس حکام کے مطابق کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے علاقے میں تیغانی، جاگیرانی، شر، بھیو اور بھنگوار گینگ اب بھی موجود ہیں جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران کچے کے ڈاکوٶں کے ہاتھوں کئی یرغمالی مارے جا چکے ہیں۔ جبکہ ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے دو سال کے دوران یہ ڈاکو 700 سے زائد افراد کو اغوا کر چکے ہیں۔ سندھ حکومت اور پولیس کے بلند بانگ دعووں اور تین سو کے لگ بھگ آپریشنز کے باوجود کچے کے مختلف ڈاکو گروہ آزادانہ وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ڈاکو پولیس کے خوف سے آزاد ہو کر وارداتیں کرتے ہیں۔ اب تک 23 پولیس اہل کار ان ڈاکوٶں کے ہاتھوں شہید اور اتنے ہی زخمی ہو چکے ہیں جبکہ پولیس نے دو درجن سے زائد ڈاکو ہلاک کرنے کے علاوہ 200 سے زائد ڈاکوؤں کو گرفتار بھی کیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں بہت سے افراد ان ڈاکوٶں کی تحویل میں ہیں۔ آزاد ذراٸع مغویوں کی تعداد 200 کے قریب بتاتے ہیں۔ آزاد ذراٸع کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ مذکورہ بالا دونوں ڈویژنوں میں ہر ماہ 20 سے 30 افراد کروڑوں روپے تاوان ادا کر کے رہاٸی حاصل کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صورتِ حال کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔
کچے کے ڈاکو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان جدید ہتھیاروں کی موجودگی کے باعث صرف پولیس کا ان ڈاکوٶں کے ساتھ مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کچے کے علاقے کے تین اطراف پولیس کے بے شمار تھانے اور چوکیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پاک فوج کی کشمور چھاؤنی، پنوں عاقل چھاٶنی اور ڈیرہ بگٹی چھاٶنی بھی ہے۔ اس کے باوجود یہ جدید ترین اور خطرناک اسلحہ ان ڈاکوٶں تک کیسے پہنچا جس میں راکٹ لانچر تک موجود ہیں۔ یہ ڈاکو اتنے دلیر ہیں کہ اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے یا دہشت قائم رکھنے کے لیے پولیس کی چوکیوں اور تھانوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔ متعدد پولیس اہل کاران کو بھی یہ لوگ اغوا کر چکے ہیں۔ گزشتہ سال 22 اور 23 اگست کی درمیانی شب رحیم یار خان کے علاقے میں کچے کے ڈاکوؤں نے حملہ کر کے 12 پولیس اہل کاروں کو شہید اور 8 کو زخمی کر دیا تھا۔
ریاست کے اندر ریاست بنا کر یہ ڈاکو ریاستی رٹ کو ہی چیلنج نہیں کر رہے بلکہ پولیس اور پاک فوج کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں۔
اپریل 2016 میں کچے کے چھوٹو گینگ نے 22 پولیس اہل کاروں کو اغوا کر لیا تھا۔ جوابی کاررواٸی میں سات پولیس والوں کی شہادت کے بعد اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے فوج سے مدد حاصل کی اور یہاں ”ضربِ آہن“ کے نام سے گرینڈ آپریشن شروع کیا گیا جس میں ڈاکوٶں کے سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو کے خلاف ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوٸے تھے۔جس کے بعد چھوٹو نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس کے بعد کچے میں ڈاکوؤں کی دہشت کا وقتی طور پر تو خاتمہ ہو گیا مگر یہ سکون صرف ایک سال برقرار رہا اور چھوٹو گینگ کی باقیات سمیت مزید گروہ نٸے ناموں سے سامنے آ گئے۔ 2019اور 2021 میں بھی ڈاکوؤں کے خلاف کامیاب آپریشنز کیے گئے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپریشن کے دوران ڈاکو بڑی تعداد میں علاقے سے فرار ہو جاتے ہیں اور بعد میں منظم ہو کر پھر کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ڈاکو اس قدر طاقتور نہیں ہیں کہ سی سی ڈی اور پنجاب پولیس کی مشترکہ کوشش کے سامنے ٹھہر سکیں۔ ان کے خلاف اگر سی سی ڈی اور پنجاب پولیس مل کر آپریشن کریں تو یہ گرینڈ آپریشن یقیناً کامیاب ہو جاٸے گا لیکن اصل مسٸلہ آپریشن کے بعد ڈاکوٶں کو منظم ہونے سے روکنا ہے۔ ان کا کچے کے علاقے میں دوبارہ داخلہ روکنا ہی اصل چیلنج ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ ڈاکو اپنی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر کچے کے علاقے ہی کو کیوں منتخب کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دریاٸے سندھ جوں جوں جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جس کی وجہ سے پانی کی روانی سست ہو جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے قریب وسعت کی وجہ سے یہ دریا کٸی ندی نالوں میں منقسم ہو جاتا ہے جن کے درمیان کٸی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہو جاتے ہیں۔ ان جزیروں تک رساٸی ریتلی زمین اور سڑکوں کی عدم موجودگی میں انتہاٸی دشوار ہو جاتی ہے۔