کالم۔ حوا کی بیٹی۔۔کاروکاری

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

بلوچستان میں حوا کی بیٹی کا جس بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا اس واقع نے جہاں ہر سوچ بچار کرنے والے کو مغموم تو کر ہی دیا ہے وہاں یہ سوچنے پر مجبور بھی کیا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ کیا ہم زمانہ جاہلیت میں رہ رہے ہیں۔ کیا آج بھی مرد عورت پر اپنا تسلط قائم کرکے اپنے آپ کو طاقتور ثابت کرنا چاہتا ہے۔ کیا سرداری نظام کا عدل و انصاف محض کاروکاری کے فیصلے کرنے کا متحمل ہے اور کیا عورت کب تک یوں مرتی رہے گی اور ہم محض باتیں کرکے ایک دوسرے کو دوش دیتے رہیں گے۔ کیا بقول راقم الحروف ہم نے کبھی سوچا ہے کہ
سوچا تھا حوا کی بیٹی
کاروکاری ہو جائیگی
سوچنے کو تو ہم سب پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہے ہیں لیکن ہم نے کبھی نہیں سوچا ہے کہ آدم کے ساتھ کرہ ارض پر آنے والی حوا کی بیٹی کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ دنیا دارالامکانات ہے اور یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے عورت بھی غلطی کرسکتی ہے اور مرد سے بھی جرم کا ارتکاب ہوسکتا ہے لیکن یوں سرعام قتل کردینے کا کیاجواز ہے اور ہم نے کبھی سوچا ہے اس نازک صنف کے خون سے ہم ہاتھ رنگ رنگ کے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس سے قبل بھی بے بہا عورتوں کا خون بہایا اور یہ سارا کچھ شک کی بنیاد پر کیا جاتا رہا ہے اور اگر عورت اور مرد کا ناجائز تعلق ثابت بھی ہوجائے تو اس کا بھی ایک قانونی راستہ ہے۔ لیکن بات تو یہ ہے کہ ہم کو یہ راستہ کون دکھائے گا۔ ہم تو سارے نام نہاد عزت وقار کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا یا ہماری ناک کٹ جانے کا شدید خطرہ ہے اور اپنی ناک بچانے کے لئے ہم اپنی عورتوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ انصاف کے نام نہاد تقاضے پورے کرنے کے لئے انصاف کا خون کررہے ہیں۔ زندگی کے سفر میں بظاہر سرخرو ہونے کے لئے اپنی ہم سفر کو زندہ درگور کرنا چاہتے ہیں۔ پیار اور محبت کے نام پر ہم نے لکھ لکھ کتابیں کالی کردی ہیں اور جب کوئی دودل پیار کرنے لگتے ہیں تو ہم سارے مل کر ڈانگیں کھینچ لیتے ہیں اور اپنے کھوکھلے ہونے کا عملی ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ہم اس نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ماننے والے ہیں جن کے ہاں نظام انصاف مبنی بر شہادت ہے اور شہادت دینے والے کا بھی ایک معیار ہے اور اس معیار پر پورا اترنے والا گواہ مر تو سکتا ہے جھوٹی گواہی نہیں دے سکتا ہے۔ ہمارے ہاں جرگہ ہو یا پنچائت یا پھر عدالت ہی کیوں نہ ہو یہاں تو کھاجے کا گواہ ڈڈو ہوتا ہے اور ڈڈو کا کام ہے ٹاں ٹاں کرنا اور پھر انصاف کا نتیجہ کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جس طرح کہ بلوچستان کے متذکرہ بالا واقعہ میں ہوا ہے۔ آنکھ نم، تن فرسودہ جاں پارہ، دل مغموم، سوچ مفلوج اور تن من سب کچھ مردہ۔ زندہ کو قبل از وقت اس کے ہم جنس مردہ کردیں گے تو مجموعی طور پر ماحول میں مردنی اور خوف کی کیفیت تو پیدا ہو گی۔ ہم نے کئی ہیروں اور صاحبوں کو کاروکاری کے نام پر مار کر اپنے آپ کو غیرت مند ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ویسے تو ایسی سوچ پر تف اور عورتوں کے لئے بھی دعوت فکر ہے۔
کارو سے مراد کالا مرد اور کاری سے مراد ہے کالی عورت۔ کاروکاری کے نام پر پاکستان کے کئی حصوں میں عورتوں کو ماردیا جاتا ہے۔ مرتی صرف عورت ہے اور اس سلسلے میں جتنے بھی آج تک کیس منظر عام پر آئے ہیں ان میں عورتوں کا خون کیا گیا ہے۔ اس مبینہ جرم میں شریک مرد یا تو اس علاقے سے بھاگ جاتے ہیں یا پھر کچھ دے دلا کر اپنی جان بچا لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ماضی میں بڑا فعال پنچائیتی نظام رہا ہے۔ اس کے تحت لوگوں کے دیوانی اور دیگر امور کے معاملات عدالت سے جانے سے پہلے ہی حل ہو جاتے تھے۔ متذکرہ بالا نظام میں کوئی قوت نافذہ نہیں تھا سوشل دباؤ کے تحت ہی لوگ اس نظام کے فیصلوں پر عملدرآمد کے پابند بنا دیئے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ قتل جیسے جرائم میں بھی صلح کروانے میں پنچائیت کا اہم کردار رہا ہے۔ تاہم کاروکاری کے جرم میں پنچائت کو بلاواسطہ استعمال کیا جاتا رہا ہے پنچائت کے فیصلوں کی آڑ میں عورتوں کا خون کردیا جاتا ہے۔ سالہا سال سے کاروکاری کے الزامات اور اس کے نتیجے میں خوفناک حد تک خواتین کے قتل۔ ملکی اور بین الاقوامی سماجی تنظیموں نے بھی متعدد بار آواز اٹھائی ہے۔ مختاراں مائی کیس قابل ذکر ہے تاہم یہ کیس افراط وتفریط کا شکار ہو گیا۔ جہاں تک آگاہی کا معاملہ ہے اس اہم معاملہ کی حساسیت کے بارے میں بھی سب لوگ جانتے ہیں۔ شاید عورت کے بارے میں ہم مرد کچھ زیادہ ہی جذباتی ہیں۔ آپ اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں لیکن کون کرے۔ عورت کے باہر نکلنے سے، اس کا اپنے حقوق کے بارے میں منہ بھر کے بات کرنے سے، اپنی آزاد مرضی سے نکاح کرنے سے وغیرہ وغیرہ کی صورت میں ہماری ناک کٹتی ہے اور ہم نے اپنی ناک بچانے کے لئے بے شمار بہنوں اور بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کردیا ہے اور اپنے آپ کو غیرت مند ثابت کرکے اس دنیا میں تو سرخرو ہو گئے ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارا کل کیا ہو گا ویسے بھی کل کس نے دیکھی ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے نبی سیدنا محمد الرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عورتوں کے معاملے میں کمال قانون سازی کردی تھی۔ انسانی فطرت کو بھی مدنظر رکھا گیا۔ جلدی شادی کا حکم دیا گیا تھا۔ عورت اور مرد کی رائے کا بھی خیال رکھا گیا تھا۔ ولی کی اجازت کو بھی کسی حد تک مرد اور عورت کی شادی کے لئے ضروری قرار دیا گیا تھا۔ کفو کے معاملے میں بھی وضاحت کردی گئی تھی۔

Comments (0)
Add Comment