ڈیمز کی تعمیر اور پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں

تحریر : فیصل زمان چشتی

پانی قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے جو ہر جاندار کے لیے زندگی کا سبب ہے۔ جہاں پانی نہ ہو وہاں زندگی کا تصور ناممکن ہے۔ اسی لئے اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انسان ہمیشہ دریاؤں اور پانی کے ذخائر کے ساتھ آباد رہا۔ اور ہزاروں سالوں سے ایسے ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں پانی کی ضرورت اور کھپت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی وجہ آبادی کا بے پناہ پریشر اور بغیر پلاننگ کے شہری آبادیوں کا بہت زیادہ پھیلاو ہے۔ پاکستان میں یہ مسائل پلاننگ کی کمی اور اداروں کی نااہلی کی وجہ سے اور زیادہ بڑھ گئے ہیں اور اب ہم مسائل کے گرداب میں مزید پھنستے جارہے ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جو اپنی معیشت اور خوراک کی حفاظت کے لیے پانی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ ڈیمز کی تعمیر ملک میں پانی کے انتظام کا ایک اہم جزو رہی ہے جس کا مقصد آبپاشی اور بجلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ سیلاب پر قابو پانا بھی ہے۔ تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات نے ڈیموں کی تعمیر اور ان کے کردار کو ایک نئے تناظر میں لا کھڑا کیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ڈیمز کی ضرورت محسوس کی گئی اور چھوٹے ڈیموں کے ساتھ ساتھ بڑے ڈیموں جیسے منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کی تعمیر نے ملک کی زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا۔
آبادی میں اضافے اور صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ پانی اور بجلی کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ڈیموں کو بجلی کی پیداوار کا ایک سستا اور قابل اعتماد ذریعہ سمجھا جاتا ہے اس سے ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں ۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو دریائی نظام پر انحصار کرتا ہے اور اکثر سیلابوں کی زد میں رہتا ہے۔ ڈیموں کو سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور ان کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث شمالی علاقوں میں موجود گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے ابتدائی طور پر دریاؤں میں پانی کا بہاؤ بڑھ رہا ہے، لیکن طویل مدت کے لیے ملک میں پانی کی قلت کا خدشہ ہے۔ ہندوستان کی آبی دہشت گردی بھی خشک سالی کے خدشات کو مزید مستحکم کرتی نظر آتی ہے ہندوستان نے کثیر تعداد میں ڈیمز بنائے ہیں اور حال ہی میں ہندوستان کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی بہت سے خطرات اور خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں شدید موسمی واقعات جیسے غیر معمولی بارشیں، خشک سالی، اور سیلابوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2010 کے تباہ کن سیلاب اور 2022 کے غیر معمولی مون سون کی بارشیں اور امسال کی جاری تباہ کن بارشیں اس کی مثال ہیں۔
ملک کے کچھ علاقوں میں پانی کی فراوانی ہوتی ہے اور وہ ڈوب رہے ہوتے ہیں جبکہ دوسرے علاقے سالی خشک سالی کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال پانی کے انتظام کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر رہی ہے۔ پانی کی عدم دستیابی یا سیلابوں کی وجہ سے زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے، جس سے خوراک اور زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ زمیندار جو پہلے ہی زرعی ادویات، کھادوں کی گرانی اور اجناس کی ارزانی پر کسمپرسی اور مایوسی کا شکار ہے قدرتی آفات جیسے مسائل کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں بالکل بھی نہیں ہے ایسا نہ کہ خدانخواستہ ہماری ریڑھ کی ہڈی کا درجہ حاصل کرنے والا شعبہ مزید بحرانوں کا شکار ہوجائے ۔ حکومت وقت کو ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے ناگزیر ہیں۔
ڈیمز , بارشوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے حاصل ہونے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں جس سے خشک موسم میں آبپاشی کے لیے پانی دستیاب ہوتا ہے اس کے ساتھ ڈیمز پن بجلی پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہیں، جو تیل جیسے مہنگے ایندھن پر انحصار کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ڈیمز سیلاب کے پانی کو کنٹرول کرکے آبادیوں اور زرعی زمینوں کو تباہی سے بچاتے ہیں۔ ڈیمز سے پانی کے ضیاع کو کم کیا جا سکتا ہے۔
کچھ ڈیم شہری علاقوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان کو ایک جامع اور مربوط پانی کی پالیسی کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مدنظر رکھے اور پانی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ بھی کرے سیاستدانوں اور دیگر اداروں کو اس سلسلے میں فوری فعال ہونے کی ضرورت ہے اور تمام چیزوں اور معاملات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام اور ملک کی بہتری کیلئے اقدامات کریں تاکہ سب کو فوری ریلیف مل سکے ۔پانی کے ضیاع کو کم کرنے اور پانی کی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے جدید آبپاشی کے طریقوں پر عملدرآمد کرنا چاہیے۔ بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے اور اسے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے طریقوں کو فروغ دینا چاہیے۔ حکومتی سطح پر بڑے پیمانے پر زیر زمین پانی کے ذخائر کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جانے چاہییں۔ مستقبل میں بنائے جانے والے ڈیموں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے خطرات جیسے غیر معمولی بارشیں، خشک سالی اور گلیشیئرز کے پگھلنے کے اثرات کو برداشت کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جانا چاہیے۔ بڑے ڈیموں کے بجائے چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیموں کی تعمیر پر غور کیا جانا چاہیے، جو مقامی سطح پر پانی کی ضروریات کو پورا کر سکیں اور ان کے ماحولیاتی اثرات بھی کم ہوں۔ پانی کے انتظام اور ڈیموں کی منصوبہ بندی میں مقامی آبادی اور اسٹیک ہولڈرز کی شرکت کو یقینی بنانا چاہیے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے پیش نظر، پاکستان کو پانی کے انتظام کے لیے ایک پائیدار اور جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے، جو ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پانی کے تحفظ، جدید آبپاشی کے طریقوں اور زیر زمین پانی کی بحالی پر بھی توجہ دے۔ ہمیں ایسے حل تلاش کرنے ہوں گے جو

Comments (0)
Add Comment