اشرف جاوید کی تصنیف۔ نو ، امن۔ عالم ۔۔۔۔ خدشات و خطرات !

پروفیسر ڈاکٹر محمد یسین حرف سچ ایڈیٹر انچیف ، روزنامہ ثبات / ماہنامہ زور، لاہور ۔ پاکستان Cell/Whats App # +923004215304 +923244549205

دنیا میں خیر و شر کی قوتیں روز۔ آفرینش سے ساتھ ساتھ چلی آرہی ہیں ،کبھی ایک دوسری پر غلبہ پالیتی ہے اور کبھی دوسری پہلی قوت کو زیر کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے ۔ یہ معاملہ کہاں رکے گا کچھ نہیں کہا جا سکتا ، لگتا ہے جب تک دنیا قائم ہے اور یہ دونوں متحارب قوتیں موجود ہیں ، دنیا میں امن کی سلامتی خطرے میں رہے گی اور توسیع پسندانہ عزائم کے مالک حکمران افرادی قوت اور ملکی وسائل کو جنگ کے شعلوں کی نذر کرتے رہیں گے تاکہ ان کا بھرم بنا رہے ۔ یہ مختصر تمہیدی کلمات میں نے اس لئے لکھے ہیں کہ مجھے چند دن پہلے اشرف جاوید کی نئی کتاب ” امن۔ عالم ۔۔۔۔خدشات و خطرات ” موصول ہوئی ۔ انتہائی اہم موضوع پر یہ کتاب مجھے اپنی جانب کھینچتی چلی گئی اور میں سوچتا رہا کہ اشرف جاوید شاعر ہے ، خواب دیکھنا تو شاعر کا حق ہے ، یہ جو نثر نگار اشرف جاوید ہے، اس نے بھی خواب دیکھنے شروع کر دیے ہیں اور اس کے خواب کا کینوس بہت وسیع ہے ۔ اس بساط عالم پر بہت سے مہرے سجے ہوئے ہیں اور اشرف جاوید ان مہروں کی چالیں دیکھنے میں مصروف کار ہے ، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اشرف جاوید یہ چالیں نہایت غور سے ملاحظہ کرتا ہے اور ان کے اسباب و علل پر بھی نگاہ رکھتا ہے اور اس کھیل تماشے کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتا ہے ۔ میں نے عالمی بساط کو کھیل اس لئے کہا ہے کہ اس بساط پر متحارب قوتیں ہمیشہ سے بر سر۔ پیکار نظر آئی ہیں ۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ، جنگ دوئم میں جب جاپان کے شہر ہیر و شیما پر ایٹم بم گرایا گیا ، تو کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے اثرات اتنے دور رس ہوں گے اور اس کی تباہی اس قدر ہولناک ہو گی کہ لوگ توبہ توبہ کر اٹھیں گے ۔ عالمی بساط کا یہ منظر اشرف جاوید نے بھی دیکھا اور ایک خواب کی صورت دیکھا اور اس خواب کی ہولناکیاں اس کی تخلیقی رو کو متحرک کرتی چلی گئیں ۔
اشرف جاوید نے جس کالم کو کتاب کا عنوان دیا ہے ، اس کا موضوع ہے ” امن۔ عالم۔۔۔۔خدشات و خطرات “۔ یہ کتاب کا مرکزی کالم ہے ۔ اشرف جاوید کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ملکی حالات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاملات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے محض ہوا میں بات نہیں اچھالتا ، بل کہ پورے سیاق و سباق کے ساتھ اس مخصوص تناظر میں بات کرتاہے ، جن اسباب کی وجہ سے کوئی واقع ، کوئی حادثہ یا کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے ۔ اشرف جاوید نے امن۔ عالم کا خواب دیکھا ہے ، یہ خواب میرا اور آپ کا بھی ہو سکتا ہے ، وہ اس لئے کہ کوئی بھی انسان مشکل اور مصیبت زدہ حالات میں رہنا پسند نہیں کرتا ۔ ہم مصیبت یا مشکل سے نکلنا تو چاہتے ہیں ، لیکن کوئی ایسا سازگار ماحول نہیں بنا پاتے ، جو ہمیں اس طلسم کدے سے نکال باہر کرے ۔ اشرف جاوید نے اس کا نہایت خوبصورت اور بہت اہم حل بتایا ہے ۔ وہ کہتا ہے ” جب دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہو گئی ہے ، تو کیا گلوبل سوسائٹی نہیں بنائی جا سکتی ، نیا دور ہے ہر بات اور ہر عمل ممکن ہے ، کیوں نہ متحارب ممالک کو ایک صف میں لا کھڑا کیا جائے ۔ امریکا ، چائینہ ، روس ، جنوبی ایشیا کے ممالک ، وسطی ایشیائی ریاستیں ، عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں کی ضروریات ، اقدار اور مفادات کو باہم سمجھا جائے اور ایک دوسرے کی شخصی اور ملکی آزادی کا نہ صرف احترام کیا جائے ، بل کہ اس کو ممکن بنانے کی کوشش بھی کی جائے ۔ تمام مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لئے باقاعدہ کوئی مستقل اور مضبوط لائحہء عمل ترتیب دیا جائے ۔ کشمیر اور کشمیریوں کی آزادی کا حل سوچا جائے ، کوئی بڑی طاقت کسی کمزور کو دیوار سے نہ لگائے اور ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم کیا جائے تاکہ گلوبل سوسائٹی کی تعمیر میں مثبت اور بھر پور کردار ادا کیا جا سکے ” ۔ اشرف جاوید کی یہ بات تو نہایت عمدہ اور اہم بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی ، کیوں کہ اس وقت وہ قوتیں جو توسیع پسندانہ عزائم رکھتی تھیں اور زور زبردستی کے سبب کمزور ملکوں کو اپنا دست۔ نگر بنانے کے لئے باقاعدہ ایک منصوبہ ترتیب دیے بیٹھی تھیں ، وہ بھی امن کی بات کرنے لگی ہیں ، آشتی کی کہانی سنانے لگی ہیں اور امان کا پرچم لہرانے لگی ہیں ۔ اس ضمن میں کئی ایک مثالیں دی جا سکتی ہیں ، بالخصوص پاک بھارت کی حالیہ جنگ کے درمیان امریکا نے جو کردار ادا کیا ہے ، وہ اس کی واضح مثال ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی واضح حکمت۔ عملی سے دو ایٹمی قوتوں کو امن کی طرف آنے پر آمادہ کرلیا ہے یقینأ یہ ایک بڑا کام ہے ۔
اشرف جاوید نے شام ، لبنان ، غزہ اور ان علاقوں کی فوجی ملیشیاز اور اسرائیل کی بر بریت کے بارے میں بھی اپنی اس نئی کتاب میں بڑی وضاحت سے تذکرہ کیا ہے اور ان حالات کا غیر جانب داری کے ساتھ جائزہ لیا ہے ۔ میں نے اشرف جاوید کی غیر جانب داری کی طرف اس لئے اشارہ کیا ہے کہ اس کی تحریروں میں یہ وصف بہت نمایاں ہے ، عمومأ لوگ حالات پر بات کرتے ہوئے ذاتی ، معاشرتی اور ریاستی جبر کے سبب اکثر اوقات رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت پردۂ سکرین پر موجود ہوتے ہیں ، لیکن اشرف جاوید ان لوگوں سے الگ تھلگ اپنی مچان میں بیٹھا ، ہونے والے واقعات کا

Comments (0)
Add Comment