لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے دو سال قبل نو مئی کو لاہور میں شیر پاؤ پل پر جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ کو دس، دس سال قید کی سزائیں سنا دی ہیں۔
دوسری جانب عدالت نے پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس مقدمے سے بری کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ یہ مقدمہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہی چلایا گیا تھا اور آج رات گئے فیصلہ بھی یہیں سنایا گیا۔
ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنما جن میں خالد قیوم، ریاض حسین، علی حسن اور افضال عظیم پاہٹ شامل ہیں انھیں بھی دس، دس سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سرگودھا کی انسداد دہشتگردی عدالت نے پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف ملک احمد بچھر اور پی ٹی آئی کے رکنِ قومی اسمبلی احمد چٹھا دیگر ملزمان کو دس، دس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔
یاد رہے کہ اعجاز چوہدری پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے رکن بھی ہیں اور اس فیصلے کے بعد وہ اپنی سیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یہی صورتحال ملک احمد بچھر اور احمد چٹھہ کے کیس میں بھی ہو گی۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے ان فیصلوں کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے یہ اعلان انسدادِ دہشتگردی کی عدالت کی جانب سے یاسمین راشد اور اعجاز چوہدری سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کو دس، دس سال قید کی سزائیں سنائے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔
اسلام آباد میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب ایک پریس کانفرنس میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’عدلیہ کے متنازع فیصلوں میں ایک نئے فیصلے کا اضافہ ہوا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان تحریکِ انصاف نے بطور جماعت نو مئی کے واقعات کی مذمت کی ہے لیکن پی ٹی آئی اور عمران خان نے خود اڈیالہ جیل میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس بارے میں منصفانہ تحقیقات کرنا آئین اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ٹرائل کرنا یہ ہمارا دو بنیادی مطالبات تھے جو پورے نہیں کیے گئے ہیں۔‘
9 مئی کو ملک بھر میں جو احتجاج ہوا اس میں نہ صرف متعدد افراد ہلاک ہوئے بلکہ سکیورٹی اہلکاروں سمیت بہت سے مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔ دنیا بھر نے دیکھا کہجانی نقصان کے علاوہ نو مئی سے گیارہ مئی کے دوران ہونے والے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے واقعات میں ملک کو ڈھائی ارب روپے کا نقصان بھی ہوا۔
ان واقعات کے بعد پکڑ دھکڑ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا اور لاہور سے تعلق رکھنے والے ابرار اور حسن جیسے کارکن ہوں یا شہریار آفریدی جیسے رہنما سبھی گرفتار کر لیے گئے۔ گرفتار افراد میں سے چند کو حال ہی میں رہائی بھی ملی ہےجبکہ سزاوں کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ دو برس قبل 9 مئی 2023 کو پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا دن رقم ہوا جس نے ریاستی اداروں، قومی یکجہتی اور سیاسی اقدار کو گہرے زخم دیے۔ اس روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کی جانب سے جو پرتشدد مظاہرے، املاک کی توڑ پھوڑ، اور حساس تنصیبات پر حملے کیے گئے، وہ کسی بھی جمہوری ملک میں ناقابل قبول اور ناقابلِ برداشت سمجھے جاتے ہیں۔ اب جبکہ ان واقعات کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں، یہ ضروری ہے کہ ہم نہ صرف ان پر غور کریں بلکہ ان اسباب کا بھی تجزیہ کریں جنہوں نے اس غیر معمولی صورتحال کو جنم دیا۔یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سڑکوں پر لا کھڑا کیالیکن احتجاج صرف نعرہ بازی یا دھرنوں تک محدود نہیں رہا؛ اس دن جو کچھ ہوا، وہ ایک منظم توڑ پھوڑکی شکل اختیار کر گیا۔
وا ضح ہو کہ لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس) کو نذر آتش کیا گیا، راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے دروازے پر ہجوم نے دھاوا بولا، اور مختلف شہروں میں فوجی یادگاروں، گاڑیوں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔مبصرین کے مطابق ان حملوں نے نہ صرف ریاستی رٹ کو چیلنج کیا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی متاثر کیا۔9 مئی کے دن جو کچھ ہوا، وہ ایک سیاسی احتجاج سے زیادہ ایک منظم تخریبی مہم کی صورت میں نظر آیا۔ مبصرین کے مطابق ریاستی ادارے، خصوصاً فوج، کو براہ راست نشانہ بنانا اس بات کا اشارہ تھا کہ یہ احتجاج محض جذباتی ردعمل نہیں تھا بلکہ بڑی حد تک ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔ بعد ازاں حکومت نے ان واقعات کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیشن بنائے، سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، اور کئی رہنماؤں نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کی۔یہ امر توجہ طلب ہے کہ عدالتوں نے بھی ان مقدمات کو سنجیدگی سے لیا، لیکن سیاسی تقسیم اور عدالتی فیصلوں میں تضاد نے اس معاملے کو مزید الجھا دیا۔ کچھ حلقوں نے ان گرفتاریوں کو سیاسی انتقام قرار دیا جبکہ دیگر نے اسے قانون کی بالادستی کا تقاضا سمجھا۔اس ضمن میں پی ٹی آئی نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے خود کو ایک سیاسی مظلوم کے طور پر پیش کیا۔ عمران خان نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ یہ سب کچھ ان کی گرفتاری کے خلاف عوامی ردعمل تھا اور پارٹی کی مرکزی قیادت کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو ویڈیوز، شواہد اور گرفتار شدگان کے بیانات سامنے آئے، ان سے یہ تاثر تقویت پاتا گیا کہ ہر سطح پر پارٹی کے اندر سے اس توڑ پھوڑ کو ہوا دی گئی۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق اس تمام صورتحال میں میڈیا، خصوصاً سوشل میڈیا، نے ایک دو دھاری تلوار کا کردار ادا کیا۔ ایک طرف سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز نے عوامی شعور کو بیدار کیا اور لوگوں نے ان واقعات کی مذمت کی، تو دوسری طرف جعلی خبریں، غلط معلومات اور