غیرت بڑی، عزت بڑی یا عورت بڑی

تحریر: خالد غورغشتی

 

نہ جانے غیرت کس بلا کا نام ہے کہ اس کے نام پر ہمیشہ قتل ہی کیوں ہوتا ہے۔ شیتل اور زرک کا یہ قتل معمولی نوعیت کا واقعہ نہیں کہ اسے ہمیشہ نظر انداز کر دیا جائے، بلکہ یہ واقعہ ان گھاؤوں کو تازہ کرتا ہے، جہاں یورپ سے آئی لڑکی کو خوشی خوشی اپنے لختِ جگر کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے، مگر اپنے ہی معصوم کلی کو پسند کی شادی کی خواہش پر کچل دیا جاتا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کا یہ لامتناہی سلسلہ ہے جس میں کوئی بھی شہر، دیہات یا گاؤں محفوظ نہیں۔ یہاں ہر روز ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو جس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے، ہر دوسرا گھر حوّا کی بیٹی کے ساتھ ہونے والے کسی نہ کسی سماجی ظلم کا گواہ ہے۔ لیکن کوئی ان کی آہ سننے والا نہیں، کوئی ان کی سسکیوں کا ماتم کرنے والا نہیں۔

گزشتہ دنوں ایک بہن نے مجھے اپنی زندگی کے تلخ حقائق بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی شادی ایک ایسے شخص سے کر دی گئی جو منشیات کا عادی تھا۔ وہ نہ صرف اس پر تشدد کرتا بلکہ جب وہ امید سے ہوئی تو اسے ایک کمرے میں قید کر دیا گیا۔ بھوکا پیاسا رکھ کر اس پر ایسے ظلم ڈھائے گئے کہ زمین بھی کانپ جائے، مگر ان ظالموں کے دل پر ذرا بھی اثر نہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں اس کا بچہ دنیا میں آنے سے قبل ہی چل بسا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ والدین کو بھی اس سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔

ایک دن اس نے سسرالیوں کی باتیں سنیں کہ وہ لڑکیوں کو شادی کے بعد بیچ دیتے ہیں۔ اس نے ہمت کر کے ان سے بھاگنے کی کوشش کی اور کئی دن کی جدوجہد کے بعد اپنے والدین کے گھر پہنچی تو جیسے کہرام مچ گیا۔ اگلے دن جب سسرالی آئے تو معافی تلافی کی بجائے اسی لڑکی پر دوبارہ ہاتھ اٹھایا۔ مگر اب وہ کمزور نہیں رہی تھی، اس نے ان کا بھرپور مقابلہ کیا اور ان کے ظلم سب کے سامنے بےنقاب کر دیے۔ آج وہ لڑکا نہ صرف فٹ پاتھوں پر مانگنے پر مجبور ہے بلکہ اس کا جسم کوڑھ جیسی بیماری سے گل رہا ہے۔

میں نے اس بیوہ سے پوچھا، تم نے اس ظالم کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟ وہ روتے ہوئے بولی: “میرا تو بیٹا نو ماہ میں ہی میرا ساتھ چھوڑ گیا، میں نہیں چاہتی کہ کسی اور ماں کی گود بھی اجڑ جائے۔” یہ الفاظ سُن کر دل دہل گیا کہ کتنی بڑی انسانیت پوشیدہ ہے ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے دلوں میں۔ جنہیں ہم کمزور سمجھتے ہیں، اصل میں وہی معاشرے کی اصل طاقت ہیں۔

یہ مسئلہ اب صرف کسی ایک لڑکی یا ایک خاندان تک محدود نہیں رہا، یہ ایک قومی المیہ بن چکا ہے۔ جو قانون کے اندھے پن، پولیس کی بے حسی، مذہبی طبقے کی خاموشی، اور معاشرتی بے شعوری کا نتیجہ ہے۔ کیا یہ وہی معاشرہ ہے جہاں عورت کو ماں، بہن، بیٹی کا مقام دیا گیا تھا؟ اگر ہاں، تو پھر یہ قتل، یہ ظلم، یہ قید و بند کیوں؟
جب ایک حلال رشتہ بھی “غیرت” کی گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے، تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ قصور محبت کا ہے، یا ہمارے بیمار اور منافقانہ اقدار کا؟
یہ کیسی دعوت تھی…

دو دل جو محبت کو پانے کے لیے ازل سے بے تاب تھے، ان کی جدوجہد سے آخرکار انھیں وہ قرار، وہ سکون اور وہ رشتۂ حلال میسر آ گیا۔ بدقسمتی سے پنجاب کے قبائل کی طرح بلوچستان کے بھی کچھ قبائلی خونخوار والدین ان کے اس خلوص بھرے بندھن سے راضی نہ ہوئے۔ انھوں نے ایک سازش رچائی، اور دونوں کو ولیمے کی دعوت کے بہانے بلا لیا۔

نہ جانے کتنے رنگین خواب آنکھوں میں بسائے، یہ حسین جوڑا خوشی خوشی روانہ ہوا۔ مگر وہ جانتے نہ تھے کہ یہ دعوت، درحقیقت موت کا پروانہ ہے۔ راستے میں ہی انھیں گھیر کر “غیرت” کے نام پر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ یہ وہ سماج تھا جسے نہ رشتۂ حلال قبول تھا، نہ حرام، اور جس کی بنیادیں صرف جاہلیت کی دیواروں سے ٹھونکی گئی تھیں۔ جو ذرا سی محبت، خلوص یا انفرادی آزادی کی آہٹ سے لرزنے لگتی تھیں۔

Comments (0)
Add Comment